زکوۃ کا نظام : خلفائے راشدین کے دور میں ۔۔۔۔۔ (آز: قادر میراں پٹیل )
اسلام ایک مکمل ’’نظامِ حیات‘‘ہے۔ اس کے کچھ حصے پر عمل کرکے اورکچھ حصوں کو نظر انداز کرکے اس نظام کے فیوض اور برکات کا حصول ممکن نہیں ہے۔
ہمیں دین میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم ہے۔ اپنی مرضی کا کچھ حصہ لیا ، کچھ حصہ پر عمل کیا ،کچھ حصے کو چھوڑ دیا، اس سے اجتماعی طورپر فائدہ نہیں ہے، بلکہ اس کے نقصانات زیادہ ہیں۔ پوری امت کا رویہ زکوۃ کے فریضہ سے کچھ اس طرح کا ہے۔ حالانکہ قرآن میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کا ذکر ہمیں ملتاہے۔ زکوۃ کا ذکر قرآن حکیم میں جملہ 32مرتبہ آیا ہے۔ مکی سورتوں میں 11دفعہ اور مدنی سورتوں میں 21دفعہ دہرایا گیا ہے۔
نبی کریمﷺنے اپنے زمانے میں زکوۃ کے وصولی کےلئے بہترین نظم کیا تھا۔ زکوۃ اور صدقات وصول کرنے والے افسران ،کاتبین صدقات، باغات میں پھلوں کا تخمینہ لگانے والے ، مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے ، اس قدر اہتمام سے اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے دربارِ نبی ﷺ سےہوا کرتاتھا۔ اور آج امت اس ادائیگی سے اتنی ہی غافل ہے عاملین کو مقرر کرتے وقت ان کی قابلیت ، دیانت ، امانت اور احساسِ ذمہ داری والے اصحاب کو ہی متعین فرماتے تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓ کو مدینہ کے اطراف ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو بنو کلب،عمرو بن عاصؓ کو قبیلہ فزارا ، حضرت عدی بن حاطم ؓ قبیلہ طئے اور اسد کی ذمہ داری دی ۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ کو عزینہ اور کنانہ قبیلے کے لئے معمور فرمایا ۔ اپنے اصحاب میں سے اعلیٰ دماغ اور ذہین و فطین شخصیات کو مقرر کیا۔ ان کو ہدایات تھیں ، سختی کے ساتھ ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ کے لئے عمدہ مال چھانٹ چھانٹ کر نہ لیں۔
زکوۃ دینے والے مقام پر جا کر وصول کریں ۔ اور ان کے لئے دعائے خیر کریں۔ پھر زکوۃ دینے والے کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ زکوۃ وصول کرنے کےلئے عاملین ان کے پاس آئیں تو خوشی سے واپس جائیں۔ آپﷺ زکوۃ وصول کرنے والوں کا محاسبہ کرتے ، ان کے لئے تنخواہ یا مشاہیرہ مقرر فرماتے تھے۔ مالی نظام کے باقاعدہ حساب کتاب کا شعبہ ، اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں موجود تھا۔ حضرت زبیر بن عوام ؓ ریاست کے گویا محاسب مقرر تھے۔
سن 9ھجری میں رسول ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا داعی اور مبلغ بنا کر روانہ فرمایاتھا۔ اور ہدایت دی تھی کہ تمہارا واسطہ یمن میں اہل کتاب سے ہوگا۔ اہل ِ یمن کو پہلے توحید کی دعوت دینا، اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ ان پر وز وشب میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ جب وہ نماز پڑھ لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر زکوۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔
حضرت نبی ﷺ کی وفات کے بعد جب صدیق ِ اکبرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو مدینہ کے آس پاس کے قبائل نے زکوۃ بیت المال میں ادا کرنے سے انکار کیاتو ان کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔مانعین ِزکوۃ کا مسئلہ ان کے خلافت کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ اور ابوبکر ؓ جیسا نرم خو، نرم طبیعت کے انسان نے اس کو سختی کے ساتھ نپٹا ۔ اور حضرت عمرؓ جیسا جلالی شخص جو اپنے سامنے شریعت کا چھوٹا سا مسئلہ کے خلاف کچھ برداشت کرنے والے نہ تھے۔ مگر ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کیا کہ جو لوگ توحید کے قائل ہیں ان کا خون بہانا صحیح نہیں ہے۔ ان کا معاملہ خدا کےساتھ ہے۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے موقف کے حق میں دلائیل کے انبار کھڑے کئے اور سختی کے ساتھ اپنے موقف پراڑے رہے۔ حضرت ابوبکرؓنے اعلانیہ کہاکہ نماز اور زکوۃ میں تفریق نہیں کی جاسکتی۔ اس معاملےمیں کسی قسم کی نرمی برتنے کےلئے تیار نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ اونٹی کی رسی بھی( بعض روایتوں کے مطابق بکری کا بچہ کا لفظ ہے) رسولﷺ کو دی جاتی تھی اسے بھی میں لے کر رہونگا۔ ارشادِ صدیقی ؓ کے مطابق جو شخص نماز اور زکوۃ میں فرق کرے گا میں ا س سے ضرور لڑونگا۔ چونکہ زکوۃ مال کا حق ہے۔
حضرت عمرفاروق ؓ پہلے تو ان کے موقف کی تائید نہیں کی تھی ،صحابہ ؓ کے گروہ میں سے بہت سارے اصحاب نے صدیق اکبرؓ کے اس موقف کی تائید نہیں کی تھی ۔ مگر حضرت عمرؓ نے بعد میں کہاکہ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق ؓ کا سینہ قتال کے لئے کھول دیا ہے۔ میری سمجھ میں آگیا کہ یہی حق ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ کا یہ واضح موقف اور صحابہ ؓ کی اکثریت کی تائید سے یہ مسئلہ مانعین ِ زکوۃ سے قتال کیا جانا چاہئے۔
یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ دورِ صدیق ؓ کی اسلامی حکومت پہلی حکومت تھی جس نے سماج کے غریب ، مسکین اور کمزور طبقے کے حقوق کے لئے جنگ کی ، جب کہ طاقتور طبقہ ان کے حقوق غصب کرتے آیا تھا۔ حکام ہمیشہ مالداروں اور طاقتوروں کے ساتھ ہی رہا کئے ، غریبوں کا استحصال ہوتارہا اور آج تک ہورہاہے۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ ٔ خلافت میں زکوۃ کی تقسیم کی صورت حال کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے یمن سے جب زکوۃ کا ایک تہائی حصہ مدینہ روانہ کیا تو خلیفہ ٔ وقت نے لینے سےانکار کرتے ہوئے کہاکہ میں نے ٹیکس یا جزیہ وصول کرنے کے لئے آ پ کو نہیں بھیجا تھا، بلکہ اس لئے بھیجا تھا کہ ان کے اعتبار سے زکوۃ وصول کرکے انہی کے فقراء میں تقسیم کردو۔ حضرت معاذؓ نے جواب میں لکھا کہ میں نے زکوۃ لینے والے کسی شخص کو محروم رکھ کر نہیں بھیجا ہے ۔ دوسرے سال معاذؓ نے نصف مال ارسال کردیا۔ دونوں میں پھر یہی باتیں ہوئیں۔ تیسرے سال پوری زکوۃ کی وصول شدہ رقم ارسال کی۔ پھر وہی سوال جواب ہوئے۔ اور حضرت معاذؓ نے کہاکہ یہاں زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں مصر کے گورنر حضرت عمرو بن عاصؓ نے خلیفہ ٔ وقت کو لکھا کہ صدقہ اور زکوۃ کی رقم لینے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اب اس رقم کا وہ کیا کریں۔ عمر بن عبدالعزیزؒنے لکھ بھیجا کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کرو۔ شاہراہوں پر مسافروں کے لئے آرام گاہیں تعمیر کرو، ان نوجوان مردوں اور عورتوں کی مالی امداد کرو، جن کا نکاح نہیں ہواہے۔ ابن ِ کثیر ؒ نے لکھا ہے کہ خلیفہ خصوصی طورپر اس کام کے لئے ایک شخص کو مقرر کیا تھا جو شہر کی گلیوں میں اعلان کرتاتھا ’’کہاں ہیں مقروض لوگ، جو اپنا قرض ادا نہیں کرسکتے، کہاں ہیں وہ لوگ ، جونکا ح کرنا چاہتےہیں ۔ کہاں ہیں محتاج اور حاجت مند ، کہاں ہیں یتیم اور بے سہارا لوگ ‘‘کوئی جواب موصول نہیں ہوتاتھا۔ سوسائٹی میں تمام لوگ مالدار ہوگئے تھے ، غربت اور مفلسی کا خاتمہ ہوگیاتھا۔
خلفائے راشدین کے بعد اموی دور میں نظام خلافت بدل گیا ۔ حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے ، بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ایسے لوگوں کے ہاتھ زکوۃ کیسے دی جائے، انہیں زکوۃ کا امین کیسے قرار دیاجائے۔ اس وقت کے باحیات صحابہ کرام ؓ نے یہی رائے دی کہ زکوۃ انہی کو دی جائے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے طورپر خرچ کرڈالو۔ انہی ایام میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے پوچھا ’اب زکوۃ کیسے دیں ‘۔ انہوں نے کہاکہ ’وقت کے حاکموں کو‘ ۔ اس شخص نے کہا’وہ زکوۃ کی رقم اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں‘۔’اگر چہ ایسا کرتےہیں مگر زکوۃ انہی کو دو‘۔
تاریخ کامطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوکر ملتی ہے کہ صدرِ اول سے آخری عہد ِ عباسیہ تک یہ نظام بلا استثناء قائم رہا ۔ لیکن ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کا سیلاب اسلامی ممالک میں امڈ آیا، نظام خلافت معدوم ہوگیا ، سوال پیدا ہواکہ اب کیا کیا جائے۔ کیونکہ حاکم غیر مسلم تھے اورا ن کے ہاتھوں میں زکوۃ نہیں دی جاسکتی ۔ عام طورپر فقہا کی رائے یہی ہے کہ جہاں حکمراں مسلم نہیں ہیں،مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنے میں سے امیر مقرر کریں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہ جائے۔
مسلم معاشرے میں اجتماعی طورپر زکوۃ کی وصولی ہو اور قرآنی ہدایات کے مطابق خرچ کی جائے۔ لیکن رفتہ رفتہ امت میں بگاڑ پیدا ہوتاگیا، نماز کے قیام کے لئے مسجدیں تعمیر ہوئیں ، مگر زکوۃ کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں مسلم آبادی جہاں اقلیت میں رہنے کے باوجود ، پندرہ کروڑ کی آبادی میں اگر 1/3بھی صاحب ِ نصاب ہوتو ہزاروں کروڑوں روپئے زکوۃ بیت المال میں جمع ہوسکتےہیں۔ مگر شریعت کےمطابق اس کی جمع اور تقسیم نہیں ہورہی ہے، اس لئے اس عظیم عبادت کی برکات سے امت محروم چلی آرہی ہے۔
مولانا صدر الدین اصلاحی ؒنے اپنی کتاب ’’اسلام ایک نظر میں ‘‘لکھا ہے کہ مسلم بستیاں جس طرح اپنی نمازوں کے لئے مسجد کا ،جماعت کا ، امامت کا انتظام کرتی ہیں اسی طرح اپنی زکوۃ کے لئے بھی بیت المال قائم کریں ، بستی کی زکوۃ اکھٹی کریں ، مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کریں ، تاکہ اسلام کے اس اہم رکن کا جو منشا ہے وہ نظم حکومت کی عدم موجودگی میں بھی اس قدر حاصل ہوتارہے جس قدر حاصل کیا جاسکتاہے۔ اگر ایسا نہ کیاگیا تو یہ اجتماعی غلط کاری ہوگی۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی تقریباً اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ان کی ایک کتاب ’’حقیقت ِ زکوۃ‘‘میں انہوں نے لکھا ہے ’’زکوۃ کے نظام سے لوگ بتدریج غافل ہوگئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا زکوۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ خود حساب کرکے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود خرچ کرڈالیں۔ حالانکہ جس زکوۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعاًیہ طریقہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوۃ کسی امین زکوۃ یا بیت المال کے حوالے کرنےکی جگہ خود خرچ کر ڈالتی ہے وہ دیدہ و دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقناً عنداللہ اس کے لئے جوابدہ ہوگی‘‘۔ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں قوم کی اجتماعی زندگی کے لئے کبھی کفیل نہیں ہوسکتی ۔ اس صورت حال کا علاج وہی ہے جو اسلام نے چودہ سوسال پہلے تجویز کیا تھا۔ یعنی قانون سازی کے ذریعہ قوم کی پوری کمائی کا خاص حصہ کمزور افراد کی خبرگیری کے لئے مخصوص کردینا۔ یعنی قوم کے آسودہ حال لوگوں سے وصول کرکے غریب و مسکین لوگوں میں بانٹ دو۔ تاکہ دولت، دولت مندوں کی اجارہ داری نہ بن جائے۔
ادائے احکام میں جس طرح یہودیوں نے ’’حیلے ‘‘نکالنےشروع کئے تھے مسلمانوں میں بھی یہ مرض سر اٹھا چکا ہے۔ مولانا آزاد اسی طرف اشارہ کرتےہوئے لکھتےہیں ’’کہ اس کا ایک مشہور طریقہ یہ بتایاگیا جو شخص زکوۃ سے بچنا چاہے اپنا مال برس ختم ہونے سے پہلے دوسرے کے ہبہ کرے۔ اس طرح باوجود مالدار ہونے کے دونوں پرسے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ مثلاً شوہر نے اپنی بیوی سے رجب کے مہینےمیں کہہ دیا کہ میں اپنا مال تجھے ہبہ کردیا۔ اس نےکہا قبول۔ اب شوہر پر زکوۃ نہیں رہی۔ بیوی پر بھی زکوۃ اس وقت واجب ہوگی جب کہ 12مہینے گذر جائیں گے۔ بارہ مہینے سے پہلے وہ شوہر سے کہہ دے گی کہ میں مال اب تمہیں ہبہ کردیا۔ اس طرح نیک بخت عورت پر سے بھی زکوۃ ساقط ہوگی۔ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنا فسق و ضلالت کی انتہا ہے۔ پڑوسی ملک میں مرحوم ضیاءالحق کے زمانےمیں ایک آرڈننس لایاگیا کہ بنکوں میں جو رقومات جمع ہیں ان پر اگر زکوۃ لاگوہوتی ہے تو زکوۃ نکالی جائے۔ البتہ فقہ جعفریہ ، اہل تشیع کو اس آر ڈننس سے مستثنیٰ قرار دیاگیا ۔ مگر افسوس کہ بہت سارے کروڑ پتی اور ارب پتی سُنِّیوں نے اپنے آپ کو شیعہ ڈیکلر کردیا۔ تاکہ بنکوں میں جمع شدہ رقم سے زکوۃ کاٹنے سے بچ جائیں۔ امت کا حال یہ ہے تو پھر اس کی اجتماعیت کو بکھیرنے سے کونسی طاقت روک سکتی ہے۔
اب بھی اگر امت کا طبقہ علماء، دانشورانِ ملت ، نمازکی زکوۃ کی اجتماعیت کے لئے کوشش کریں اور امت کے دیانت دار ، امانت دار اور صالح عناصر آگے آئیں تو یہ عبادت ، حقیقی طورپر عبادت ہوگی اور اس کے فیوض و برکات سے امت محظوظ ہوگی۔ ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ دنیا میں رائج دوسرے طریقے جو اب تک ناکام ہورہے ہیں ، اسلامی اقتصادی نظام سے انسانیت کی فلاح و بہبود ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس مسئلے کی حقیقت کو امت پر اجاگر کردے اور زکوۃ کے اجتماعی نظام کو نافذکرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین۔
صدقات کی برکت کی زندہ مثال :سیدنا عثمان ؓ نے ایک کنویں کی شکل میں انفاق کا چشمہ 14ویں صدی قبل جاری کیاتھا۔ وہ ترک دور میں پھیل کر ہزاروں درختوں پر مشتمل ایک باغ بن گیا۔ اور وہ آج اعلیٰ ترین کوالٹی کے کھجوروں کا وسیع فارم ہے۔ آج بھی یہ باغ عثمان بن عفانؓ کی ملکیت ہے جس سے حکومت نے مدینہ میں ایک ہوٹل ’’فندق عثمان بن عفانؓ‘‘ تعمیر کیا جس کی آمدنی مزید لاکھوں ریال پر مشتمل ہوگئی۔ یہ سارا خزانہ آج بھی حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ذاتی اکاونٹ میں مستقل جمع ہورہاہے۔ اس اکاونٹ سے انفاق کی کئی تازہ اور شفاف نہریں پھوٹ رہی ہیں۔
جماعت اسلامی ہند نے شریعت کےاجتماعی نظام کو زندہ رکھنےکی کاوشوں اورجدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ ملک بھر میں زکوۃ کا بہترین اجتماعی نظم ہے۔ جو کوئی اس سلسلےمیں اتباع شریعت میں اپنی زکوۃ غریبوں، مسکینوں، بےسہاروں، یتیموں ، لاچاروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ جیل میں بند قیدیوں کی گردنیں چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے دیگر رفاعی و فلاحی کاموں کا حصہ بننا چاہتے ہیں ان سے التماس ہے کہ وہ اپنی زکوۃ جماعت اسلامی ہند کے بیت المال میں جمع کریں۔