آپ صرف ڈھول بجا کر لوگوں سے گھر خالی کرنے اور انہیں منہدم کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے، سپریم کورٹ کی یوپی حکومت کو پھٹکار؛ 25 لاکھ معاوضہ دلوانے کا حکم
لکھنو 6/نومبر (ایس او نیوز) اُتر پردیش میں بلڈوزر ایکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ نے بدھ کے روز یوپی حکومت کو ہدایت دی ہے کہ انہوں نے بغیر اطلاع دئے سڑک کی توسیع کے لیے ایک گھر کو منہدم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایسے "من مانی" رویے پر سرزنش کرتے ہوئے مالک مکان کو 25 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ گھر کو منہدم کرنے میں کسی قانونی عمل کی پیروی نہیں کی گئی۔ خود حکومت نے حلف نامہ داخل کر کے اعتراف کیا ہے کہ اس معاملے میں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی، جو کہ 2020 میں مہاراج گنج کے رہائشی منوج تبرے وال آکاش کے ذریعہ لکھے گئے ایک خط پر خود بخود(سوموٹو کیس) درج کیا گیا تھا۔ ان کا آبائی گھر 2019 میں مسمار کر دیا گیا تھا۔ بینچ میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل تھے۔
سی جے آئی کی ناراضگی
چیف جسٹس چندرچوڑ نے حکومت کی جانب سے دیے گئے غیر قانونی اقدامات پر شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسی بھی قانونی عمل کی پیروی نہیں کی اور محض لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دے دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ "آپ یہ کہتے ہیں کہ وہ 3.7 مربع میٹر عوامی اراضی پر قبضہ کر رہے تھے، ہم اس بات کو مان لیتے ہیں۔ لیکن بغیر نوٹس کے لوگوں کے گھروں کو گرانا کیسے شروع کیا جا سکتا ہے؟ بغیر اطلاع کسی کے گھر میں داخل ہونا اور اسے منہدم کرنا یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
قانونی عمل کی عدم پیروی پر سوالات
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ مکمل طور پر من مانی ہے۔ عدالت کے پاس موجود حلف نامے کے مطابق، یوپی حکومت کے افسران نے موقع پر پہنچ کر لوگوں کو ان کے گھروں کے انہدام کی اطلاع دی۔ جسٹس جے بی پاردی والا نے سوال کیا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجاوزات تھے جبکہ 1960 سے لے کر پچاس سال تک آپ نے کیا اقدامات کیے؟ سی جے آئی نے وضاحت کی کہ وارڈ نمبر 16 محلہ حامد نگر میں اپنے آبائی گھر اور دکان کے انہدام کی شکایت پر منوج تبرےوال کے خط پر عدالت نے خود نوٹس لیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سخت سوالات
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران یوپی حکومت سے سوالات کیے کہ آپ کے افسران نے رات کو سڑک کی توسیع کے نام پر نشان زدہ حصے کو منہدم کر دیا اور اگلی صبح بلڈوزر کے ساتھ پہنچ گئے۔ کیا آپ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکلنے کا وقت بھی نہیں دیتے ؟ عدالت عالیہ نے کہا کہ اس کیس میں سڑک کی توسیع محض ایک بہانہ معلوم ہوتا ہے۔ سی جے آئی نے کہا کہ یوپی حکومت نے این ایچ کی اصل چوڑائی ظاہر کرنے کے لیے کوئی دستاویز پیش نہیں کیا ہے جبکہ این ایچ آر سی کی رپورٹ کے مطابق منہدم شدہ حصہ 3.75 میٹر سے کہیں زیادہ تھا۔
سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کو معاوضہ ادا کرنے کے حکم کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ اس معاملے میں ملوث افسران اور کنٹریکٹرز کے خلاف انکوائری کی جائے اور مناسب تادیبی کارروائی شروع کی جائے۔ عدالت نے ایک ماہ کے اندر ان ہدایات پر عمل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔