کیا آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھٹکل سے اُتارا جائے گا مسلم اُمیدوار؟ سوشیل میڈیا پرجاری ہے زوردار بحث

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 13th March 2023, 11:39 PM | ساحلی خبریں |

بھٹکل 13 مارچ (ایس او نیوز) کرناٹک میں ماہ مئی میں اسمبلی انتخابات ہونے کی توقع کے درمیان بھٹکل میں سوشیل میڈیا پراس بات کو لے کر زوردار بحث جاری ہے جس کو دیکھتے ہوئے اس بات کے آثار نظرآرہے ہیں کہ  بھٹکل سے پھر ایک بار مسلم اُمیدوار کو میدان میں  اُتارا جاسکتا ہے۔

سوشیل میڈیا پر کہاجارہا ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی والے علاقہ سے مسلم لیڈر کواسمبلی میں روانہ کیا جانا ضروری ہے۔ اس تعلق سے وہاٹس ایپ پرایک گروپ بھی بنایا گیا ہے جس میں اس بات پر زور دیا جارہا ہے کہ مسلم اکثریت والے اس علاقہ سے مرحوم جوکاکو شمس الدین اور مرحوم ایس ایم یحیٰ کے بعد مسلمانوں  کی لیڈرشپ کیوں اور کیسے  کمزورہوگئی۔ اُن کے بعد علاقہ سے دوسرے مسلم لیڈروں کوکیوں تیار نہیں کیا گیا، کیوں مسلمانوں کا قدیم سماجی ادارہ مسلمانوں کے بجائے دوسری کمیونٹی کے افراد کو آگے کرتارہا ؟  یہ بات الگ ہے کہ اِس گروپ میں بعض لوگ کانگریس کے حق میں بھی آواز اُٹھارہے ہیں اور بی جے پی کو اقتدارسے دور رکھنے کے لئے کانگریس کو ہی واحد متبادل قرار دے رہے ہیں۔ کانگریس کے حامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ریاست میں کانگریس اقتدار پرآنا تقریبا طئے ہے، ایسے میں بھٹکل کے مسلمانوں کو بھی کانگریس کی حمایت کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو بھٹکل میں بی جے پی کی جیت یقینی ہے۔ گروپ میں بعض لوگ لکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو متحد ہوکر کانگریس کے حق میں ہی ووٹ دینا ہوگا ورنہ بی جے پی کو جیت سے  روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

بھٹکل اسمبلی حلقہ میں ووٹروں کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے جس میں اکثریت نامدھاری اور مسلم  ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق کم و بیش 65 ہزارنامدھاری اور 55 ہزارمسلم ووٹرس ہیں۔ ان کے بعد ایس سی/ایس ٹی، موگیر، دیواڑیگا، کرسچن و دیگر کاسٹ کے بھی ووٹرس ہیں۔ یہاں کانگریس، بی جے پی اور جے ڈی ایس کی طرف سے اکثر نامدھاری طبقہ کے اُمیدوار ہی میدان میں اُترتے رہے ہیں اور کانگریس مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی جیت درج کرتی رہی ہے۔ البتہ دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی مسلمان  کسی اُمیدوار کو اسمبلی میں روانہ کرنے کے لئے متحد ہوکر ووٹنگ کرتے ہیں، مسلم مخالف ووٹرس اُس اُمیدوار کو ہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔2013  میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں جب مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے جےڈی ایس کی ٹکٹ پرعنایت اللہ شاہ بندری میدان میں اُترے تو بی جے پی، کانگریس اور کے جے پی سے نامدھاری کےاُمیدوارمیدان میں  تھے، جس کی وجہ سے نامدھاری طبقہ کے ووٹ تقسیم ہوگئے اور نتیجتاً آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے میدان میں موجود موگیر طبقہ کے لیڈر منکال وئیدیا  کو جیت حاصل ہوئی۔ منکال وئیدیا کو اُس وقت 37319 ووٹ ملے تھے، جبکہ دوسرے نمبر پر عنایت اللہ شاہ بندری رہے تھے جنہوں نے 27435 ووٹ حاصل کئے تھے۔

بعد میں جب منکال وئیدیا کانگریس میں شامل ہوئے اور 2018 میں کانگریس کی  ٹکٹ پرمیدان میں اُترے تو مسلم اکثریت نے انہیں اپنی حمایت دینے کا فیصلہ کیا تھاجبکہ اُنہیں شکست دینے کے لئے مخالف گروپ متحد ہوگیا۔ نتیجتاً  منکال وئیدیا کو 77242 ووٹ ملے جبکہ بی جے پی کے سنیل نائک نے 83172 ووٹ لے کر میدان مارلیا ۔

حالات کو دیکھتے ہوئے اِس بارمسلم نوجوانوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ پھرایک بار مسلم اُمیدوار کو میدان میں اُتارا جانا چاہئے اور پرانی روایتوں کو ختم کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی جانی چاہئے۔ اس تعلق سے سوشیل میڈیا پر زوردار طریقہ پر مہم چلائی جارہی ہے اور مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو متحد ہوکر مسلم اُمیدوار کو اسمبلی میں روانہ کرنے کی راہ ہموار کرنی ہوگی۔

بتاتے چلیں کہ مرحوم شمس الدین جوکاکو کے بعد مرحوم ایس ایم یحیٰ صاحب کو جب 1983 میں بھٹکل اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی تو انہوں نے بعد میں بینگلور سے کانگریس کی  ٹکٹ پر انتخابی میدان میں اُترتے ہوئے جیت درج کی تھی۔ مگر اُن کے بعد بھٹکل سے مسلم اُمیدواروں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملا، اس تعلق سے پوچھے جانے پرسوسالہ قدیم سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم کے سابق صدر جناب سید محی الدین برماورنے بتایا کہ اُس وقت سے لے کر آج تک قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم میں کانگریس کے حمایتی یا کانگریس سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کی اکثریت زیادہ رہی ہے جو مسلم اُمیدوار کوچھوڑئے، کانگریس کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی کی حمایت کرنے بھی نہیں دیتے۔سید محی الدین برماور کا کہنا ہے کہ ہم نے 1999میں نامدھاری لیڈران سے بات چیت کی اوراُن کے ساتھ  زبانی طور پر یہ معاہدہ کیا   کہ اِس بار(1999میں) ہم نامدھاری اُمیدوار کی حمایت کریں گے لیکن اگلے انتخابات یعنی2004 میں  اُنہیں مسلم اُمیدوار کی حمایت کرنی ہوگی، اسی بنیاد پر تنظیم نے 1999 میں جے ڈی نائک کی حمایت کا فیصلہ کیا اورمسلمانوں کی حمایت سے  جے ڈی نائک نے جیت درج کی، شرط کے مطابق  2004 کو مسلم اُمیدوار کو میدان میں اُتارنا تھا، مگر اُس وقت کے نامدھاری لیڈران اپنے وعدے سے مکر گئے اور کہا کہ ہمارا سنگھا ہی اب نہیں رہا، کمیٹی میں نئے لوگ آئے ہیں جو ہماری بات نہیں مان رہے ہیں۔ ایک طرف تنظیم میں کانگریس پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کا دباو اوردوسری طرف نامدھاری کا ٹال مٹول، ان سب کو دیکھتے ہوئے تنظیم کے پاس اس کے علاوہ دوسرا چارہ نہیں تھا کہ پھر ایک  بار کانگریس کی حمایت کی جائے۔ یہ بات الگ ہے کہ حمایت کرنے کے باوجود جے ڈی نائک کو شکست ہوئی اور بی جے پی کے شیوانند نائک نے جیت درج کی۔

بی جے پی کو شکست دینے کے لئے2008 میں بھی مسلمانوں کو پھر ایک بارکانگریس کے جے ڈی نائک  کی حمایت کرنی پڑی اور وہ  پھرایک بار رکن اسمبلی بن گئے۔2013 میں تنظیم کی طرف سے  مسلم اُمیدوار کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا گیا اور جے ڈی ایس کی ٹکٹ پر عنایت اللہ شاہ بندری نے 27 ہزار ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر آنے میں کامیابی حاصل کی۔ سید محی الدین برماور صاحب کا کہنا ہے کہ بھلے ہی ہمارے نمائندے کو شکست ہوئی، مگر ہم کانگریس اور دیگرسیکولر پارٹیوں کواس بات کا مضبوط پیغام دینے میں کامیاب ہوئے کہ تنطیم کے پاس اتنی بڑی تعداد میں ووٹرس ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 

2018 میں پھرایک بارتنظیم نے کانگریس کی حمایت کی اور جےڈی ایس قائد عنایت اللہ شاہ بندری کومیدان میں اُتارنے سے باز رکھا تاکہ مسلمانوں کے  ووٹ بکھرنے نہ پائے، مگر پوری کوشش کے باوجود منکال وئیدیا کو قریب پانچ ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی۔ سید محی الدین برماور کا کہنا ہے کہ تنظیم کے پاس اتنی کثیر تعداد میں ووٹرس ہونے کی بات معلوم ہونے کے باوجود  کانگریس نے مسلمانوں کو نظر انداز کیا۔ سی اے اے /این آر سی احتجاج کا معاملہ ہو یا حجاب کا معاملہ ہو، مسلمانوں کا ووٹ لینے والے منکال وئیدیا نے مسلمانوں کی حمایت نہیں کی، یہاں تک کہ انہوں نے دیگر کانگریسی لیڈران کو بھی مسلمانوں کے احتجاج میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش کی، جس کے تعلق سے ایک آڈیو کلب بھی سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے کا ثبوت موجود ہے۔ان سب کو دیکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر تکیہ نہ کرتے ہوئے مسلم نمائندے کو ہی  آگے بڑھائے اور اپنی طاقت کا بھرپورمظاہرہ کریں۔

آنے والے اسمبلی انتخابات میں مسلم لیڈر کو میدان میں اُتارنے کے تعلق سےاُس وقت کے جنرل سکریٹری جناب یحیٰ دامودی کا بھی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے، انہوں نے بھی  مسلم لیڈر کی حمایت کرنے اورمسلمانوں کومتحد ہوکرمسلم اُمیدوار کی ہی جیت کے لئے ہرممکن کوشش کرنے پر زور دیا ہے۔

مسلم اُمیدوار کومیدان میں اُتارنے کے تعلق سے عوام میں بیداری پیداکرنے کے تعلق سے "بھٹکل 2023 اسمبلی ڈیبیٹ؛ کون بنے گا ایم ایل اے" نامی ایک  وہاٹس ایپ گروپ بھی بنایا گیا ہے جس میں قائد قوم جناب ایس ایم سید خلیل الرحمن،قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل کے جنرل سکریٹری جناب عبدالرقیب ایم جے ندوی، انجمن حامئی مسلمین بھٹکل کے صدر اور تنظیم کے سابق صدرایڈوکیٹ مزمل قاضیا سمیت اندرون ہند کی مختلف بھٹکلی جماعتوں کے ذمہ داران وگلف کی مختلف جماعتوں کے صدروسکریٹریان کے ساتھ ساتھ دیگرذمہ داران اورعام لوگ بھی شامل ہیں۔ گروپ کے ایڈمین جناب عمران کپّا عرف عمران آرٹس اورمعزز کولا نے بتایا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے مقصد سے اس گروپ کو قائم کیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنی اپنی رائے سامنے رکھے کہ وہ اِس بار کیا چاہتے ہیں، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ گروپ میں اکثریت یہی چاہتی ہے کہ اِس بارمسلم اُمیدوارکے حق میں ہی فیصلہ ہونا چاہئے اور کسی بھی صورت میں مسلم اُمیدوار کو ہی جیت دلاکر کرناٹک اسمبلی میں پہونچانا چاہئے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ  مسلم اُمیدوارمیدان میں اُترنے کی صورت میں بی جے پی کی جیت کی راہ ہموارہوجائے گی،ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لوگ  مسلمانوں کو ہمیشہ اسی بات سے ڈراتے  آرہے ہیں، انہوں نے پوچھا کہ 2018 میں جب کانگریس اور جے ڈی ایس نے مل کر حکومت بنائی تھی توکانگریس کے ہی 12 اور جے ڈی ایس کے تین ارکان اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے اورمخلوط حکومت کو گرا کربی جے پی کو اقتدار پر پہنچایا تھا۔ آج بھی مرکز اور ریاست میں بی جے پی کی ہی حکومت ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ  کیا آپ اس بات کی گیارنٹی دے سکتے ہیں کہ ہم اگراس باربھی کانگریس اُمیدوار کے حق میں ووٹ دے کر اُسے جتائیں گے تو وہ جیت درج کرنے کے بعد بی جےپی سے ہاتھ نہیں ملائے گا ؟ عمران کا کہنا ہے کہ ہار کے ڈرسے ہمیں میدان نہیں چھوڑنا چاہئے، ہار اور جیت ہوتی ہی رہے گی، ان کے مطابق اگر ہمارا اُمیدوار30/40 ہزار ووٹ لے کر ہار بھی جاتا ہے توہم سیکولر پارٹیوں کے سامنے اپنی طاقت منواسکیں گے اور پیغام دینے میں کامیاب ہوں گے کہ مسلمانوں کےمسائل کو سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ عمران کے مطابق ہمیں پوری کوشش بھی کرنی ہوگی کہ ہمارا اُمیدوار جیت درج کرے، جس کے لئے  ہمیں نامدھاری لیڈروں کے ساتھ ساتھ  موگیر، ایس سی ایس ٹی ، کرسچن اور دیگر لیڈران سے بھی بات چیت کرنی ہوگی، انہوں نے بتایا کہ  پہلے ہمیں مسلمانوں  کے دل و دماغ سے  بی جے پی  کا شیر آیا، شیر آیا کا خوف نکالنا ہوگا، مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا کرنی ہوگی اوراس بات کو سمجھانا ہوگا کہ بھٹکل کے مسلمانوں میں بھی قائدانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور وہ نہ صرف پوری مسلم قوم  بلکہ وہ تمام مذاہب اور طبقات  کو ساتھ لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں اور تمام لوگوں کے لئے  کام کرسکتے ہیں۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ غیروں کو ووٹ دینے کے باوجود اگروہ ہار جاتا ہے تو کیا وہ  ہارنے کے بعد بھی مسلمانوں کے حق میں کھڑا ہوگااورمسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سامنے آئے گا ؟

وہاٹس ایپ گروپ ایڈمین عمران اور معزز نے یہ بھی بتایا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں  مسلمانوں کو کس کی حمایت کرنی چاہئے، اس تعلق سے حتمی فیصلہ قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل ہی کرے گااور تنظیم کا جو بھی فیصلہ ہوگاوہ تمام لوگوں کی طرح ہمیں بھی قابل قبول ہوگا۔

 

For English Report:
Widespread debate on Social Media demanding Muslim candidate for Bhatkal assembly constituency ahead of Karnataka polls

ایک نظر اس پر بھی

کنداپور میں پیش آیا دردناک واقعہ - حادثاتی طور پر ماں باپ اور بچے کنویں میں گر گئے ۔ 2 بچوں کی موت

بیلالا گرام پنچایت کے نندرولی میں گھر کے قریب واقع حادثاتی طور پر ایک کنویں میں گرنے سے دو بچوں کی موت واقع ہوگئی جبکہ بچوں کی ماں زخمی ہوگئی اور اسے سنگین حالت میں اسپتال میں داخل کیا گیا ۔  

ہوناور نیشنل ہائی وے پر ایمبولینس الٹ گئی 

کمٹہ سے ایک فالج زدہ مریضہ اور اس کے رشتے داروں کو منگلورو لے جانے والی ایمبولینس  نیشنل ہائی وے 66 پر ہوسپٹن کراس کے قریب بے قابو ہو کر الٹ گئی مگر خوش قسمتی کسی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔

ہائی ویز کے وزیر گڈکری نے کہا : خستہ حالت والی شاہراوں کا ٹول وصول نہیں ہونا چاہیے - کیا اتر کنڑا میں بند ہوگی ٹول وصولی ؟

مرکزی وزیر برائے ہائی ویز نتین گڈکری نے کہا ہے کہ اگر ہائی وے خستہ حالت میں یا پھر معیاری خدمات فراہم نہیں کی جا رہی ہوں تو پھر ہائی وے ایجنسیوں کو ٹول وصول نہیں کرنا چاہیے ۔