کرناٹک میں وقف زمین کا تنازعہ :حقوق کی بازیابی یا سیاسی مفادات کی بھینٹ؟۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور
بینگلور 3/نومبر : کرناٹک میں وقف زمینوں کا تنازعہ حالیہ دنوں میں شدت اختیار کر گیا ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر طبقات کو بھی بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ زمینیں، جو وقف کی امانت ہیں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص کی گئی تھیں، اب حکومتی مداخلت، سیاسی دعوؤں، اور مقامی کسانوں کے احتجاج کی زد میں ہیں۔ اس مسئلے نے ریاستی اور قومی سطح پر ایک نئی بحث نے جنم دیا ہے۔تنازعہ کی ابتداء اس وقت ہوئی جب وجے پورہ اور دیگر اضلاع میں وقف بورڈ کی تقریباً 1200 ایکڑ زمین پر مبینہ غیر قانونی قبضے کے سبب مقامی کسانوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ یہ زمینیں مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص تھیں، مگر غیر قانونی تجاوزات اور نوٹسوں کی واپسی نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ تنازعہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب حکومت کرناٹک نے وجے پورہ میں ان زمینوں پر قبضوں کے حوالے سے نوٹس جاری کیے، جو چند دن بعد واپس لے لیے گئے۔ وزیر اوقاف ضمیر احمد خان اور وزیر قانون ایچ کے پاٹل نے اس نوٹس کے اجرا کو "غلطی" قرار دیا، مگر یہ سوال برقرار ہے کہ آیا یہ واقعی ایک غلطی تھی یا سیاسی دباؤ کے تحت ہوا۔
اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے اور اپوزیشن کی شدید تنقید کے بعد، سدارامیا حکومت نے ہنگامی اجلاس منعقد کیے، جس میں وقف کی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کسانوں اور دیگر کو دیے گئے نوٹسوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس صورتحال نے عوام میں ان خدشات کو جنم دیا کہ آیا حکومت واقعی وقف حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے یا یہ محض سیاسی مفادات کی حکمت عملی ہے۔
ریاست میں وقف عدالتوں کا انعقاد حال ہی میں کیا گیا، حالانکہ یہ عدالتیں وقف زمینوں کے مسائل کے حل کے لیے ضروری تھیں۔ ان عدالتوں کا انعقاد ایسے وقت پر ہوا جب ضمنی انتخابات اور ریاستی وقف بورڈ کے انتخابات قریب تھے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ اقدامات انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان نوٹسز نے اس وقت فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا جب متعلقہ وزیر نے حکمت و دور اندیشی سے خالی جزباتی بیانات کا سلسلہ شروع کیا اور بی جے پی کے فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل ایک سابق مرکزی وزیر کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔
بی جے پی کے چند رہنما کانگریس پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ وقف زمینوں کے مسئلے کو مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اوقاف ضمیر احمد خان کے چند بیانات نے اپوزیشن کو مزید مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا سکے۔ ریاست کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران ہر سیاسی جماعت اس تنازعے کا بھرپور استعمال کر رہی ہے اور ناتجربہ کاری اور مخصوص مفادات کے لیے کیے گئے چند فیصلوں نے بھی اقلیتی بہبود کے محکمے کو کمزور کیا ہے۔ تو وہیں بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی کے پرانے بیانات بھی دوبارہ زیرِ بحث آئے ہیں، جن میں انہوں نے وقف حقوق کی حفاظت پر زور دیا تھا۔ اس کی بنیاد پر بی جے پی پر ڈبل اسٹینڈرڈ رکھنے کے الزامات بھی عائد ہو رہے ہیں۔
حکومت کی بے رخی اور اقلیتی حقوق کا تحفظ: کرناٹک میں وقف زمینوں کا مسئلہ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت کو وقف کے اصل مقاصد کو سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ریاست میں وقف حقوق کے لیے سنجیدہ قانونی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ذات پات کی سیاست اور سیاسی دباؤ کے بجائے حکومتی فیصلے حقائق اور انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں۔ آخر کب تک اقلیتیں سیاست کی نذر ہوں گی؟ کب تک ان کے حقوق کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا؟ کیا ہر بار انتخابات کے لیے مسلم مفادات کو ہی قربان کیا جاتا رہے گا؟
اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مسلمان اس حکومت کی ایک اہم بنیاد ہیں، اور ان کے حقوق کی حفاظت کے بغیر حکومت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی۔ موجودہ صورتحال میں کانگریس کی حکومت وقف زمینوں کے مسئلے پر کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرتی نظر نہیں آتی۔ نوٹسوں کی واپسی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وقف زمینوں کے حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی اقلیتی حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے تو اسے فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بی جے پی نے اس مسئلے کو کسانوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کانگریس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وقف زمینوں کے مسئلے کو کسانوں کے مفادات کے خلاف استعمال کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ بی جے پی حکومت نے بھی اس نوعیت کے نوٹسز جاری کیے تھے۔ اس مسئلے کو کسانوں کے ساتھ جوڑ کر سیاست کرنے سے زیادہ ضروری ہے کہ وقف اور کسان دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
کرناٹک میں وقف زمینوں کے مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو ایسی جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو وقف زمینوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ وقف عدالتوں کے باقاعدہ انعقاد اور قانونی دائرے میں مسئلے کا حل تلاش کرنے سے تنازعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے ایک ایسا حل نکالیں جس سے اقلیتوں اور کسانوں دونوں کے حقوق محفوظ رہیں۔
وقف زمینیں مسلمانوں کی ایک امانت ہیں، اور ان کے حقوق کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ مسئلہ محض انتخابی نعروں کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے بلکہ سنجیدگی سے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو وقف زمینوں اور کسانوں دونوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں)