کرناٹک میں وقف زمین کا تنازعہ :حقوق کی بازیابی یا سیاسی مفادات کی بھینٹ؟۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

Source: S.O. News Service | Published on 3rd November 2024, 6:50 PM | ریاستی خبریں | اسپیشل رپورٹس |

بینگلور 3/نومبر : کرناٹک میں وقف زمینوں کا تنازعہ حالیہ دنوں میں شدت اختیار کر گیا ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر طبقات کو بھی بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ زمینیں، جو وقف کی امانت ہیں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص کی گئی تھیں، اب حکومتی مداخلت، سیاسی دعوؤں، اور مقامی کسانوں کے احتجاج کی زد میں ہیں۔ اس مسئلے نے ریاستی اور قومی سطح پر ایک نئی بحث نے جنم دیا ہے۔تنازعہ کی ابتداء اس وقت ہوئی جب  وجے پورہ اور دیگر اضلاع میں وقف بورڈ کی تقریباً 1200 ایکڑ زمین پر مبینہ غیر قانونی قبضے کے سبب مقامی کسانوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ یہ زمینیں مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص تھیں، مگر غیر قانونی تجاوزات اور نوٹسوں کی واپسی نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ تنازعہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب حکومت کرناٹک نے وجے پورہ میں ان زمینوں پر قبضوں کے حوالے سے نوٹس جاری کیے، جو چند دن بعد واپس لے لیے گئے۔ وزیر اوقاف ضمیر احمد خان اور وزیر قانون ایچ کے پاٹل نے اس نوٹس کے اجرا کو "غلطی" قرار دیا، مگر یہ سوال برقرار ہے کہ آیا یہ واقعی ایک غلطی تھی یا سیاسی دباؤ کے تحت ہوا۔

اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے اور اپوزیشن کی شدید تنقید کے بعد، سدارامیا حکومت نے ہنگامی اجلاس منعقد کیے، جس میں وقف کی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کسانوں اور دیگر کو دیے گئے نوٹسوں کی واپسی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس صورتحال نے عوام میں ان خدشات کو جنم دیا کہ آیا حکومت واقعی وقف حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے یا یہ محض سیاسی مفادات کی حکمت عملی ہے۔

ریاست میں وقف عدالتوں کا انعقاد حال ہی میں کیا گیا، حالانکہ یہ عدالتیں وقف زمینوں کے مسائل کے حل کے لیے ضروری تھیں۔ ان عدالتوں کا انعقاد ایسے وقت پر ہوا جب ضمنی انتخابات اور ریاستی وقف بورڈ کے انتخابات قریب تھے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید یہ اقدامات انتخابی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان نوٹسز نے اس وقت فرقہ وارانہ رنگ اختیار کیا جب متعلقہ وزیر نے حکمت و دور اندیشی سے خالی جزباتی بیانات کا سلسلہ شروع کیا اور بی جے پی کے فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل ایک سابق مرکزی وزیر کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔

بی جے پی کے چند رہنما کانگریس پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ وقف زمینوں کے مسئلے کو مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وزیر اوقاف ضمیر احمد خان کے چند بیانات نے اپوزیشن کو مزید مواقع فراہم کیے ہیں کہ وہ حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا سکے۔ ریاست کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران ہر سیاسی جماعت اس تنازعے کا بھرپور استعمال کر رہی ہے اور ناتجربہ کاری اور مخصوص مفادات کے لیے کیے گئے چند فیصلوں نے بھی اقلیتی بہبود کے محکمے کو کمزور کیا ہے۔ تو وہیں بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی کے پرانے بیانات بھی دوبارہ زیرِ بحث آئے ہیں، جن میں انہوں نے وقف حقوق کی حفاظت پر زور دیا تھا۔ اس کی بنیاد پر بی جے پی پر ڈبل اسٹینڈرڈ رکھنے کے الزامات بھی عائد ہو رہے ہیں۔

حکومت کی بے رخی اور اقلیتی حقوق کا تحفظ: کرناٹک میں وقف زمینوں کا مسئلہ اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے حقوق پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت کو وقف کے اصل مقاصد کو سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ریاست میں وقف حقوق کے لیے سنجیدہ قانونی اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ذات پات کی سیاست اور سیاسی دباؤ کے بجائے حکومتی فیصلے حقائق اور انصاف پر مبنی ہونے چاہئیں۔ آخر کب تک اقلیتیں سیاست کی نذر ہوں گی؟ کب تک ان کے حقوق کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا؟ کیا ہر بار انتخابات کے لیے مسلم مفادات کو ہی قربان کیا جاتا رہے گا؟

اب وقت آگیا ہے کہ کانگریس حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ مسلمان اس حکومت کی ایک اہم بنیاد ہیں، اور ان کے حقوق کی حفاظت کے بغیر حکومت انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتی۔ موجودہ صورتحال میں کانگریس کی حکومت وقف زمینوں کے مسئلے پر کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرتی نظر نہیں آتی۔ نوٹسوں کی واپسی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وقف زمینوں کے حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت واقعی اقلیتی حقوق کے تحفظ میں سنجیدہ ہے تو اسے فوری عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

بی جے پی نے اس مسئلے کو کسانوں کے حقوق سے جوڑتے ہوئے کانگریس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ وقف زمینوں کے مسئلے کو کسانوں کے مفادات کے خلاف استعمال کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ بی جے پی حکومت نے بھی اس نوعیت کے نوٹسز جاری کیے تھے۔ اس مسئلے کو کسانوں کے ساتھ جوڑ کر سیاست کرنے سے زیادہ ضروری ہے کہ وقف اور کسان دونوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

کرناٹک میں وقف زمینوں کے مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو ایسی جامع پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو وقف زمینوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ وقف عدالتوں کے باقاعدہ انعقاد اور قانونی دائرے میں مسئلے کا حل تلاش کرنے سے تنازعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے ایک ایسا حل نکالیں جس سے اقلیتوں اور کسانوں دونوں کے حقوق محفوظ رہیں۔

وقف زمینیں مسلمانوں کی ایک امانت ہیں، اور ان کے حقوق کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہ مسئلہ محض انتخابی نعروں کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہیے بلکہ سنجیدگی سے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے جو وقف زمینوں اور کسانوں دونوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں)

ایک نظر اس پر بھی

وقف جائیدادوں کی مسماری کے لیے بی جے پی نے 216 مقدمات میں جاری کئے تھے 6 نوٹس ؛ وزیر اعلیٰ سدارامیا نے بومئی کے یو ٹرن پراُٹھائے سوال

وزیر اعلیٰ سدارامیا نے سابق وزیر اعلیٰ بسوراج بومائی پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان سے وقف جائیدادوں کے حوالے سے کیے گئے یوٹرن پر سوال اٹھایا ہے۔ سدارامیا نے یاد دلایا کہ بومائی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دوران وقف جائیدادوں کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا تھا، لیکن اب سیاسی مقاصد کے تحت ان ...

بینگلور میں ہوگامسلم پرسنل لاء بورڈ کا 29 واں اجلاس؛ تیاریاں جاری؛ اجلاس میں وقف ترمیمی بل کو لے کر طے کی جائے گی آئندہ کی حکمت عملی

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا 29واں اجلاس 23اور24نومبر کو بنگلور کے دارلعلوم سبیل الرشاد میں منعقد ہوگا۔ جس کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس اجلاس میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے پرسنل لاء بورڈ کے نمائند ے شرکت کریں گے۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریڑی مولانا فضل ...

مودی کو کرناٹک میں بی جے پی کی "نقصان دہ وراثت" کی تحقیقات کرنی چاہئیں: سدارمیا

کرناٹک کے وزیر اعلی سدارمیا نے حالیہ دنوں میں کانگریس حکومت پر وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کا سخت جواب دیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ریکارڈ کی جانچ کریں۔ سدارمیا نے کہا کہ مودی کو کرناٹک میں بی جے پی کی "تباہ کن وراثت" کی ...

ہمارا ماڈل ملک بھر کے لیے مثال بن رہا ہے، بی جے پی بھی اپنا رہی ہے: ڈی کے شیوکمار

کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ اور ریاستی کانگریس صدر ڈی کے شیوکمار نے ہفتہ کو وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے کیے گئے ’غیر حقیقی وعدوں‘ پر تنقید کا بھرپور جواب دیا۔ شیوکمار نے کہا کہ ’’ہماری عوامی فلاحی اسکیمیں ملک کے لیے ترقی کا نمونہ بن رہی ہیں اور ان کی کامیابی پورے ملک میں ...

ریاست کرناٹک کے 69ویں راجیہ اتسو ایوارڈز تقریب میں 69 شخصیات کو اعزازات، کنڑا زبان کے فروغ پر وزیراعلیٰ نے دیا زور

ریاست کرناٹک کے 69ویں راجیہ اتسوا کے موقع پر جمعہ، یکم نومبر کو وزیر اعلیٰ سدارامیا نے 69 ممتاز شخصیات کو اعزازات سے نوازا۔ ان شخصیات میں مختلف شعبوں میں نمایاں کارنامے انجام دینے اور کرناٹک کی خدمت میں مثالی کردار ادا کرنے والے افراد شامل ہیں، جن میں سابق وزیر اعلیٰ اور مصنف ...

مردم شماری کا اعلان اور اسمبلی انتخابات۔۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

مرکزی حکومت نے ایسے وقت ملک میں اگلے سال یعنی 2025 میں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ جب دو ریاستوں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابات ہو رہے ہیں ۔ مردم شماری کام کم از کم ایک سال تک جاری رہے گا اور توقع ہے کہ ڈیٹا کی جانچ، درجہ بندی اور حتمی ڈیموگرافکس کی اشاعت میں مزید ایک ...

پوشیدہ مگر بڑھتا ہوا خطرہ: ڈیجیٹل گرفتاری: انٹرنیٹ کی دنیا کا سیاہ چہرہ۔۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی نے بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں، وہیں انٹرنیٹ کے بڑھتے استعمال نے ہماری زندگیوں میں کچھ ان دیکھے اور خطرناک چیلنج بھی متعارف کرائے ہیں۔ انہیں چیلنجز میں سے ایک سنگین چیلنج "ڈیجیٹل گرفتاری" ہے۔ دراصل ڈیجیٹل گرفتاری ایک ایسی کارروائی ہے جس میں سائبر ...

بنگلورو کی بارشیں مسائل اور حکومت کی ذمہ داریاں۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

بنگلورو، جو کبھی اپنی شاندار آب و ہوا اور دلکش مناظر کےلئے جانا جاتا تھا، اب موسمیاتی تبدیلیوں اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے سنگین مشکلات کا شکار ہے۔ مانسون کی بارشیں جو پہلے اس شہر کی خوبصورتی کا حصہ تھیں، اب شہریوں کے لیے مصیبت بن گئی ہیں۔ ہر سال بارشوں کے دوران کئی علاقے ...

کرناٹک کی ذات پات مردم شماری: کیا مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سماجی و سیاسی مخالفت کی وجہ بن رہی ہے؟۔۔۔۔۔۔ از:عبدالحلیم منصور 

حکومت کرناٹک نے حال ہی میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ اس رپورٹ کے نتائج ریاست کے سماجی، اقتصادی، اور تعلیمی ڈھانچے کا جامع جائزہ پیش کریں گے، جس کی بنیاد پر اہم حکومتی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ تقریباً 48 جلدوں پر مشتمل مردم ...

جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں ...... آز: معصوم مرادآبادی

آج ہم اپنی آزادی کی 78 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔15/اگست 1947میں ہماراملک انگریزسامراج کے ہاتھوں سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آزادی ایک طویل اور صبر آزماجدوجہد کا نتیجہ تھی، جس میں تمام فرقوں اور طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو انگریزوں کے ذہنی غلام تھے اور آج بھی ہیں۔ ...