شملہ 8/ستمبر (ایس او نیوز/ایجنسی) بی جے پی کارکنوں اور بعض ہندو تنظیموں کے شدید احتجاج اور مسجد کو گرانے کی بڑھتی مانگ کے بعد پتہ چلا ہے کہ وقف بورڈ نے ہماچل پردیش کی سنجولی مسجد کی بعض تعمیر شدہ منزلوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ وقف بورڈ کی طرف سے بعض منزلوں کے غیر قانونی تعمیر ہونے کا بیان اُس وقت سامنے آیا جب ہماچل پردیش اسمبلی میں ایک مقامی ایم ایل اے نے مسجد کی تعمیر کو لےکر سوالات کھڑے کئے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہندو تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد، شملہ وقف بورڈ نے سنجولی مسجد کے امام کو برطرف کر دیا ہے، ساتھ ساتھ مسجد سے ملحقہ متعدد تعمیرات کو غیر مجاز قرار دیتے ہوئے اسے منہدم کر دیا ہے۔ شملہ وقف بورڈ کے ریاستی افسر قطب الدین نے بتایا کہ مسجد کے امام کو برطرف کرکے مسجد کو وقف بورڈ کے اختیار میں لے لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک غیر مسلم شخص کو پیٹنے اور اسے شدید زخمی کرنے کی واردات کے بعد بی جے پی کارکنوں اور بعض ہندو تنظیموں نے مسجد کی تعمیر کو ہی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا مطالبہ شروع کر دیا تھا، اور یہ احتجاج اتنا شدت اختیار کرگیا کہ بالاخر کئی منزلوں کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کرنا پڑا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق 30 اگست کی رات کو شملہ کے ملیانہ علاقے میں 37 سالہ وکرم سنگھ کو بعض افراد نے بری طرح زخمی کر دیا تھا۔جس نے غیر مسلموں کو مشتعل کر دیا۔
مسلم فریق کا کہنا ہے کہ مسجد وقف بورڈ کی ملکیت ہے۔ مسجد کے امام مولانا شہزاد کے حوالے سے آئی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ مسجد 1947 سے قائم ہے۔ لیکن ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق 2010 میں مسجد میں تین زائد منزلیں تعمیر کی گئیں تھیں جسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہ معاملہ اگرچہ پرانا ہے لیکن دو مختلف برادریوں کے لوگوں کی لڑائی کی وجہ سے ہندو تنظیموں کی طرف سے مسجد کو ہی منہدم کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہاں دو دکانداروں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ بات بڑھی تو معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا۔ دونوں برادریوں کے لوگوں نے اپنے اپنے لوگوں کی حمایت میں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ غیر مسلم شخص کی پیٹائی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ہندو تنظیمیں متحرک ہوگئیں اور انہیں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع مل گیا۔ مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ لے کر بی جے پی اور ہندو تنظیموں کے کارکنوں نے 5 ستمبر کو سنجولی میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کے لئے دو دنوں کی مہلت دی گئی تھی، جس کے بعد اگلے ہی روز وقف بورڈ نے مسجد کی بعض منزلوں کو غیر قانونی تعمیر قرار دیتے ہوئے گرادیا۔
اس معاملے پر سیاسی تنازعہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اپوزیشن بی جے پی نے حکمراں جماعت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔ معاملے کو لے کر سنیچر 7ستمبر کو میونسپل کمشنرز عدالت میں سنوائی تھی جس میں عدالت نے ہماچل پردیش وقف بورڈ اور متعلقہ جونئیر انجینئر کو مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو لے کر تازہ اسٹیٹس رپوٹ جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت کی اگلی سنوائی 5/ اکتوبر کو ہوگی۔
ہماچل پردیش ، جہاں کانگریس کی حکومت ہے، چیف منسٹر سکھویندر سنگھ سکھو نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو قابو میں رکھیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے ملک کی سالمیت اور سیکولرزم کو نقصان پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور ہمیں مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا چاہیے۔