وہ مسجدیں اور عمارتیں جو نشانے پر ہیں ۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

Source: S.O. News Service | Published on 7th December 2024, 1:19 PM | اسپیشل رپورٹس |

جب 1991 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے عبادت گاہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا تو یہ توقع کی گئی تھی کہ اب کسی بھی تاریخی مسجد، مقبرے، درگاہ اور قبرستان پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی، اسی شکل میں رہے گی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جا سکے گا اور اسے کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اس کے دائرے سے بابری مسجد کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ اس دفعہ کی شق دو میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسی کسی عبادت گاہ کے سلسلے میں کسی عدالت میں کوئی تنازع ہے تو وہ کالعدم ہو گیا اور آگے بھی کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ دفعہ چھ کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا کیرکٹر تبدیل کیے جانے پر تین سال کی سزا ہوگی جسے بڑھایا بھی جا سکے گا۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اب تاریخی عمارتوں پر دعووں کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہاں رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے۔ اس فیصلے میں عبادت گاہ قانون کی خوب خوب ستائش کی گئی تھی۔ لیکن جب 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے دی تو وہ فیصلہ ایک نذیر بن گیا۔ اس کے بعد کئی مساجد پر دعوے کیے جانے لگے اور عدالتوں کی جانب سے مسجدوں کے سروے کا حکم دیا جانے لگا ہے۔ اس صورت حال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عبادت گاہ قانون یا تو بالکل بے اثر ہو گیا ہے یا پھر اسے بے اثر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں عبادت گاہ قانون کے سلسلے میں تفصیل سے گفتگو کی تھی۔ اس کالم میں اس کا جائزہ لیں گے کہ کن کن مسجدوں یا عمارتوں ہر دعوے کیے جا رہے ہیں اور ان کی پوزیشن کیا ہے۔

جامع مسجد دہلی: آل انڈیا ہندو مہا سبھا نے سال 2022 میں وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے نام ایک خط میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے مورتیاں دفن ہیں۔ ان کو وہاں سے نکالنے کے لیے کھدائی کرانے کی ضرورت ہے۔ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے راقم الحروف سے گفتگو میں کہا کہ جب اورنگ زیب کے سینئر جنرل خان جہاں بہادر راجستھان کے جودھپور میں مندروں کو توڑ کر واپس لوٹے اور اپنے ساتھ قیمتی اشیا کے علاوہ مورتیاں بھی لائے تو اورنگ زیب نے انھیں ہدایت کی کہ وہ مورتیوں کو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دفن کر دیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں اورنگ زیب کے ایک تاریخ داں کا حوالہ دیا اور کہا انھوں نے اپنی کتاب ’معاصر عالم گیری‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے جامع مسجد کے امام سے اپیل کی کہ وہ مسجد کی سیڑھیوں کی کھدائی کی اجازت دیں۔ ہندو سینا کے وشنو گپتا نے بھی تقریباً یہی باتیں کہی ہیں۔ مورخین کی جانب سے ہندو مہا سبھا کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیا جا رہا اور کہا جا رہا ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس دعوے کا مقصد مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان منافرت پیدا کرنا ہے۔ یاد رہے کہ تاریخی جامع مسجد کی تعمیر مغل حکمراں شاہ جہاں کے دور حکومت میں 1644 سے 1656 کے درمیان ہوئی تھی۔

اجمیر درگاہ: یہ بات قارئین کو معلوم ہے کہ 28 نومبر کو ایک ہندو مذہبی تنظیم ’ہندو سینا‘ نے اجمیر کی سول عدالت میں درخواست دائر کرکے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سنکٹ موچن مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا اور درگاہ کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ سول کورٹ (ویسٹ) نے درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اجمیر درگاہ کمیٹی، مرکزی حکوم تکی اقلیتی امور کی وزارت اور محکمہ آثار قدیمہ کو نوٹس جاری کر دیا۔ اس معاملے پر اگلی سماعت 20 دسمبر کو ہو گی۔ اس سلسلے میں تجزیہ کاروں، قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اجمیر عدالت کی کارروائی سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ آٹھ سو برس سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔ درگاہ کمیٹی کے سیکریٹری سید سرور چشتی کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب ایسا کوئی تنازع پیدا نہیں ہو گا۔ لیک اب دوسری عبادت گاہوں پر دعوے کیے جا رہے ہیں۔ آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل کے صدر اور درگاہ کے سجادہ نشین کے جانشین سید نصیر الدین چشتی نے راقم الحروف سے گفتگو میں مذکورہ دعوے کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ ہم اس کا جواب قانونی طور پر دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ آٹھ سو سال کی تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا۔ ان کے مطابق حکومت کے ذمہ داروں اور متعدد سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال عرس کے موقع پر درگاہ پر چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی درگاہ پر چڑھانے کے لیے چادر پیش کرتے ہیں۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے حلف برداری کے بعد درگاہ کا دورہ کرکے گلہائے عقیدت پیش کیے۔ سید نصیر چشتی نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے کو روکے اور ایک گائیڈ لائن جاری کرے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ڈھائی دن کا جھونپڑہ: تازہ معاملہ اجمیر میں واقع ’ڈھائی دن کا جھونپڑا‘ نامی تاریخی مسجد کے سلسلے میں پیدا ہوا ہے جس پر ہندو اور جین سادھووں نے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ چند روز قبل جین مذہب کے کچھ پیرووں نے وہاں کا دورہ کیا اور وہاں سنسکرت اسکول اورقدیم مندر کے آثار ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کی تائید اجمیر کے ڈپٹی میئر نیرج جین نے کی۔ انھوں نے بھی دعویٰ کیا کہ یہاں جین مندر ہے اور تباہ شدہ مجسموں کے باقیات ملے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق پہلے یہاں سرسوتی کالج تھا جسے منہدم کرکے مسجد کی تعمیر کی گئی۔ اس مسجد میں کل 70 ستون ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مندروں کے ہیں اور انھیں جوں کا توں استعمال کر لیا گیا ہے۔ رواں سال کے آغاز میں بھی کئی جین سادھووں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جنھیں اندر جانے سے روک دیا گیا تھا۔ جس پر جین مذہب کے لوگوں نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق اس مسجد کی تعمیربارہویں صدی میں افغان سپہ سالار محمد غوری کے حکم پر ہوئی تھی۔ غوری نے کسی بلند مقام پر مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور اس کے لیے صرف ڈھائی روز کی مہلت دی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بڑی تعداد میں مزدوروں نے دن رات کام کرکے اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔

جامع مسجد سنبھل: اس سے قبل اترپردیش کے شہر سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد پر ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے 19 نومبر کو مقامی عدالت میں درخواست دائر کی گئی اور مسجد میں ہندوؤں کے داخلے اور پوجا کی اجازت طلب کی گئی۔ عدالت نے اسی روز سماعت کرکے سروے کا حکم دیا اور اسی روز سروے کر لیا گیا۔ لیکن ایڈووکیٹ کمشنر نے 24 نومبر کو پھر سروے کیا جس پر تشدد پھوٹ پڑا اور پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ اس مسجد کے تنازعے سے متعلق تفصیلات حالیہ دنوں میں اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔

اٹالہ مسجد جونپور: ایک ہندو تنظیم ’سوراج واہنی‘ نے گزشتہ سال اترپردیش کے شہر جونپور میں واقع اٹالہ مسجد پر دعویٰ کیا۔ اس سلسلے میں مقامی عدالت میں اپیل دائر کی گئی جسے سول جج سینئر ڈویژن نے رواں سال کے مئی میں سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں گیان واپی مسجد وارانسی اور شاہی عیدگاہ متھرا کے طرز پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس نے ماہ اکتوبر میں مسجد کے متولی کو نوٹس جاری کیا اور ایک جنرل نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اس معاملے میں فریق بننا چاہے تو بن سکتا ہے۔ پٹیشنرز کا دعویٰ ہے کہ یہ اٹالہ ماتا مندر تھا جسے 1408 میں سلطان ابراہیم نے توڑ کر مسجد کی تعمیر کی۔ انھوں نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اور تاریخی ریکارڈز کا بھی ہوالہ دیا۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ اٹالہ مسجد میں صدیوں سے نماز ادا کی جا رہی ہے۔ ہم اس سلسلے میں قانونی کارروائی کریں گے۔ عدالت نے سنی سینٹرل وقف بورڈ کی پٹیشن 37 سی کو خارج کر دیا۔ اعظم گڑھ او رجونپور کی تاریخ کے ماہر ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہندو فریق کے دعوے کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے ان کے شواہد کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ ان سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہا ںپہلے کوئی مندر تھا۔

جامع مسجد بدایوں: ہندو مہا سبھا نے اترپردیش کے بدایوں کی جامع مسجد پر دعویٰ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نیل کنٹھ مہادیو مند رہے۔ ایک مقامی عدالت میں ہفتے کو اس معاملے پر سماعت ہوئی جس کے دوران مسجد انتظامیہ کمیٹی نے اپنا موقف رکھا۔ بحث مکمل نہیں ہوئی لہٰذا اب اس پر تین دسمبر کو سماعت ہوگی۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے وکیل انور عالم کا کہنا ہے کہ ہندو مہاسبھا کو پٹیشن داخل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انھوں نے مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی تردید کی اور کہا کہ یہ مسجد ساڑھے آٹھ سو سال پرانی ہے اور یہاں مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جب کہ ہندو مہا سبھا کے وکیل وویک رینڈر نے کہا کہ ہمارے موکل نے نیل کنٹھ مہادیو مند رمیں پوجا کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ ہندو مہا سبھا کے ریاستی کنوینر مکیش پٹیل کے مطابق ہم نے تمام ثبوت عدالت میں پیش کیے ہیں۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں بدایوں جامع مسجد کے سلسلے میں دائر کیے جانے والے کیس پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ فریقین کو 1991 کے عبادت گاہ قانون کے مطابق اپنا موقف رکھنا ہوگا۔ آل انڈیا مسلم جماعت کے صدر مولانا مفتی شہاب الدین رضوی نے کہا کہ ہندوستان کے بادشاہ شمس الدین التمش نے 1223 میں بدایوں میں ایک مسجد کی تعمیر کی تھی جسے شمسی جامع مسجد بدایوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ برطانوی دور حکومت کی تاریخ میں 1856 میں مسجد کا ذکر ملتا ہے۔ انگریزی، فارسی اور اردو زبان میں شائع تاریخ کی کتابوں میں بھی مسجد کا ذکر ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں مذہبی کشیدگی کو روکنے کے لیے مداخلت کریں۔

گیان واپی مسجد وارانسی: اب پہلے کچھ تاریخی تنازعات کے بارے میں گفتگو کی جائے گی اس کے بعد نئے تنازعات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ پانچ ہندو خواتین نے وارانسی کی ایک عدالت میں گیان واپی مسجد کی مغربی دیوار پر گوری شنکر کی مورتی کی یومیہ پوجا کی اجازت طلب کرنے کے لیے درخواست داخل کی تھی جس پر عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ سروے کمشنر نے پوری مسجد، حوض اورتہہ خانوں کاسروے کیا جس پر گیان واپی مسجد تنازع اور سنگین ہو گیا۔ عدالت نے وضو خانے کو سیل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ ادھر مقامی عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں یومیہ پوجا کی اجازت دے دی۔ اس سلسلے میں قانونی ماہرین سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ جب مسجد انتظامیہ کمیٹی نے عبادت گاہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے سروے کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو ڈی وائی چندر چوڑ نے یہ کہتے ہوئے سروے کی اجازت دے دی کہ اس سے مسجد کی ہیئت نہیں بدلے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وضوخانے کو سیل کیے جانے اور تہہ خانے میں یومیہ پوجا ہونے سے مسجد کی ہیئت بدل گئی ہے۔ اگر چندر چوڑ نے سروے کی اجازت نہ دی ہوتی تو نئی نئی مسجدوں پر تنازعات پیدا نہیں ہوتے۔

بھوج شالہ کمال مولیٰ مسجد: مدھیہ پردیش کے دھار ضلع میں واقع صوفی بزرگ کمال الدین مالوی کی 15 صدی کی درگاہ پر بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس کے برابر میں 14 ویں صدی میں تعمیر کی جانے والی ایک مسجد بھی ہے۔ تقریباً ایک صدی سے اس پر ہندووں کا دعویٰ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ احاطہ باگ دیوی (سرسوتی) کا بھوج شالہ (مندر) ہے۔ ایک ایجوکیشن آفیسر کے کے لیلے نے پہلی بار اپنے ریسرچ پیپر میں 1903 میں اس جگہ کے لیے بھوج شالہ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ 2000 سے ہی ہندو تنظیمیں اس مسجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ اپریل 2003 میں محکمہ آثار قدیمہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ہندومنگل کو پوجا کریں اور مسلمان جمعہ کی نماز ادا کریں۔ ایک ہندو تنظیم ’ہندو فرنٹ فار جسٹس‘ نے 2022 میں ہائی کورٹ کی اندور بینچ میں درخواست داخل کرکے مطالبہ کیا کہ اس میں صرف ہندووں کو پوجا کی اجازت دی جائے۔ ہائی کورٹ نے 2023 میں محکمہ آثار قدیم کو سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔محکمہ آثار قدیمہ نے رواں سال کے جولائی میں عدالت میں رپورٹ داخل کی جس میں مسجد کے احاطے میں مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سروے میں 94 مورتیاں یا ان کے ٹکڑے ملے ہیں۔

شاہی عیدگاہ متھرا: اترپردیش کے متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کرشن جنم بھومی کا تنازع بھی کافی پرانا ہے۔ ہندووں کا دعویٰ ہے کہ 1618 میں راجہ ویر سنگھ بندیلا نے مندر کی تعمیر کی تھی جسے مغل حکمراں اورنگ زیب کے دور حکومت میں 1670 میں منہدم کرکے وہاں مسجد کی تعمیر کی گئی۔ اس تنازعے پر کئی عشروں سے عدالتوں میں کارروائی چل رہی ہے۔ اصل مقدمے میں شاہی عیدگاہ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ کرشن جنم بھومی کی زمین پر بنی ہے۔ ایک دوسری درخواست میں متنازع مقام کو کرشن جنم بھومی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے عدالت نے خارج کر دیا۔ مسلم فریقوں کی جانب سے اس دعوے کو مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ 1968 میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ اور شاہی عیدگاہ کمیٹی کے درمیان ہوا جس کے مطابق مندر کی زمین مندر ٹرسٹ کو اور شاہی عیدگاہ کا انتظام عید گاہ کمیٹی کو دیا گیا۔ معاہدے میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ شری کرشن جنم استھان سیوا سنگھ کا شاہی عید گاہ مسجد پر کوئی قانونی دعویٰ نہیں ہے۔ لیکن 2020 میں کچھ ہندووں نے عدالت میں درخواست داخل کرکے اس معاہدے کو چیلنج کیا۔ شروع میں عدالت نے اسے خارج کر دیا لیکن پھر اسے قابل سماعت قرار دیا۔ گزشتہ سال مئی میں الہ آباد ہائی کورٹ نے 18 متعلقہ درخواستوں کو طلب کیا جس کی وجہ سے یہ معاملہ پھر سرخیوں میں آگیا۔ اس نے دسمبر میں شاہی عیدگاہ مسجد کے احاطے کے سروے کا حکم دیا تاکہ اس کا تاریخی تعین کیا جا سکے۔ مسلمانوں کی جانب سے اس حکم کو عبادت گاہ قانون کے حوالے سے چیلنج کیا گیا۔ جس پر رواں سال کے 16 جنوری کو سپریم کورٹ نے سروے کے حکم کو معطل کر دیا۔

تاج محل: بی جے پی کے ایودھیا کے میڈیا سیل کے سربراہ رجنیش سنگھ نے 2022 میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کرکے 17 ویں صدی میں تعمیر کیے جانے والے مقبرے تاج محل کی حقیقی تاریخ جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی اپیل کی تھی۔ ان کے مطابق اس کا کوئی تاریخ ثبوت نہیں ہے کہ تاج محل کو مغل حکمراں شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے تہہ خانوں کو کھولنے اور ان میں جانچ کرائے جانے کی بھی اپیل کی تھی۔ ان کی اس درخواست کو عدالت نے خارج کر دیا تھا۔ ہندو تنظیمیں 1989 سے ہی محبت کی اس نشانی پر دعویٰ کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس کا اصل نام ’تیجو مہالیہ‘ ہے۔ ان کا یہ دعویٰ ہندو نظریات کے حامل ایک مورخ پی این اوک کی کتاب ’تاج محل: دی ٹرو اسٹوری‘ کی بنیاد پر ہے۔ کتاب مںی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ 12ویں صدی میں بھگوان شیو کے محل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ان کے مطابق شاہ جہاں نے 17 ویں صدی میں تیجو مہالیہ کو تاج محل میں تبدیل کر دیا۔ ہندو تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اسے شیو مندر میں تبدیل کرکے اس میں پوجا شروع کریں گے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے تاج محل کے تیجو مہالیہ ہونے کی تردید کی ہے۔ واضح ہے کہ تاج محل دنیا کے ساتویں عجوبے کے طور پر پوری دنیا میں مشہور ہے اور دنیا بھر سے سیاح اس کو دیکھنے کے لیے آگرہ آتے ہیں۔

قطب مینار: سال 2022 میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے دعویٰ کیا گیا کہ جنوبی دہلی کے مہرولی علاقے میں واقع ملک کا سب سے بلند مینار قطب مینار قطب الدین ایبک کا تعمیر کردہ نہیں ہے بلکہ اسے راجہ وکرما دتیہ نے سورج کی سمت کا پتہ لگانے کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ قطب مینار کے احاطے میں قائم مسجد قوت الاسلام کی تعمیر مندر کے احاطے میں ہوئی ہے۔ یہ درخواست جین دیوتا تیرتھنکر داس، ہندو دیوتا بھگوان وشنو اور ان کے دوستوں کی جانب سے داخل کی گئی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ محکمہ آثار قدیم کے مطابق 27 ہندو اور جین مندروں کو توڑ کر مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کی گئی۔ درخواست میں مندروں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی اپیل کی گئی ہے کہ یہ قرار دیا جائے کہ بھگوان وشنو، شیو، گنیش، سوریہ دیوتا، دیوی گوری، بھگوان ہنومان اور تیرتھنکر رشبھ دیو کو مسجد قوت الاسلام کی جگہ پر مندر کی بحالی کا حق ہے۔ دریں اثنااطلاعات کے مطابق مسجد قوت الاسلام کی دیواروں پر قرآنی آیات کے نقوش مٹا دے گئے ہیں۔ ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل کا دعویٰ ہے کہ قطب مینار دراصل ’وشنو استمبھ‘ ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق قطب مینار کی تعمیر 13 ویں صدی میں قطب الدین ایبک نے شروع کی تھی اور اسے ان کے جا نشین التمش نے مکمل کیا تھا۔ یاد رہے کہ قطب مینار 72.5 میٹر یا 237.8 فٹ اونچا ہے اور اس میں 379 سیڑھیاں ہیں۔ اس کی بنیاد کا قطر 14.3 میٹر ہے۔ اسے عالمی ادارے یونسکو نے 1993 میں عالمی ورثہ قرار دیا۔ اسے محکمہ آثار قدیم کے تحت محفوظ یادگار قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک جنرل آرڈر پاس کرکے ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کرنے پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔ انھوں نے اس صورت حال کے لیے ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ انھوں نے گیان واپی مسجد کے سروے کی جو اجازت دی تھی وہ نذیر بن گئی اور اب اس کی آڑمیں ذیلی عدالتیں مسجدوں کے سروے کا حکم صادر کر رہی ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ جس جج نے سنبھل کی جامع مسجد کے فوری طور پر سروے کا حکم دیا تھا الہ آباد ہائی کورٹ اسے معطل کرے اور اس سے جواب طلب کرے۔ انھوں نے اس پورے معاملے کو سیاسی قرار دیا۔

عبادت گاہ قانون 1991: یاد رہے کہ عبادت گاہ قانون کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل مںی تھی وہ اسی شکل مںی رہے گی اس کاکیرکٹر بدلا نہیں جا سکے گا۔ شق دو میں کہا گیا ہے کہ اگر ایسی کسی عبادت گاہ کے سلسلے میں کسی عدالت میں کوئی تنازع ہے تو وہ کالعدم ہو گیا اور آگے بھی کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کے دائرے سے بابری مسجد کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دفعہ چھ کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کا کیرکٹر تبدیل کیے جانے پر تین سال کی سزا ہوگی جسے بڑھجایا بھی جا سکے گا۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

ایک نظر اس پر بھی

چراغ جلتے ہیں مگر اندھیرا بڑھتا ہے، ملک میں امیروں کی خوشحالی اور عوامی بدحالی کا المیہ۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

ساحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ ہندوستان کے موجودہ معاشی حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک کی معیشت میں ارب پتیوں کی تعداد اور ان کی دولت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف عوام کی ایک بڑی تعداد غربت، بے روزگاری، اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا شکار ہے۔ یہ تضاد ملک کے ...

یہ کون بچھا رہا ہے نفرت کا جال، کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے؟۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک، جو کبھی ہندوستان کی ثقافتی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی مثال سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی تاریخی وراثت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ اس کے معاشرتی و سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ یہ سوال کہ ...

پلیس آف ورشپ ایکٹ لاگو ہونے کے باوجود مسجدوں کے سروے کیوں ؟ کیا سروے کرانے کی لسٹ میں شامل ہیں 900 مساجد ؟

بھلے ہی 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک میں لاگو ہو،  جو یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن  80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران جو  نعرہ گونجا تھا: "ایودھیا صرف جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے" ،  اس نعرے  کی بازگشت حالیہ ...

آئینہ دکھا تو رہے ہیں، مگر دھندلا سا ہے،ای وی ایم: جمہوریت کی حقیقت یا ایک بڑا تنازع؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ...

کرناٹک ضمنی انتخابات: مسلم ووٹ کا پیغام، کانگریس کے لیے عمل کا وقت۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت نے کانگریس کو زبردست سیاسی برتری دی۔ مسلم کمیونٹی، جو ریاست کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں، نے ان انتخابات میں اپنی یکجہتی ظاہر کی، اور اب یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد کا بھرپور احترام ...