سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ، بلڈوزر کارروائیوں پر حکومتی افسران کو ملزمان کی جائیداد گرانے کا اختیار نہ دینے کا حکم
نئی دہلی، 13/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ نے آج بلڈوزر کارروائیوں کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا کہ ریاستی حکومتیں صرف الزامات کی بنیاد پر کسی فرد کی جائیداد کو تباہ نہیں کر سکتیں۔ عدالت نے اس عمل کو آئین کے تحت فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی نفی کی، اور قانون کی حکمرانی کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک کوئی شخص مجرم ثابت نہ ہو جائے، اس کی جائیداد کو صرف الزام کی بنیاد پر تباہ کرنا غیر قانونی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومتوں اور ان کے اہلکاروں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو مجرم قرار دے کر اس کی جائیداد تباہ کریں۔ یہ فیصلہ آئین کے اصولوں کے تحت افراد کی حفاظت کے حق میں ہے، جو انہیں ریاستی طاقت کے من مانے استعمال سے بچاتا ہے۔
عدالت نے اس بات کی وضاحت کی کہ قانون کی حکمرانی میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ شہریوں کی جائیداد بغیر کسی معقول وجہ کے نہیں چھینی جا سکتی۔ اس فیصلے میں حکومتوں اور ان کے افسران کو متنبہ کیا گیا کہ وہ قانون کے دائرہ کار سے باہر جا کر کسی کو سزا دینے کے طور پر جائیداد کے انہدام کا عمل نہ کریں۔
یہ فیصلہ ان متعدد کیسز کے تناظر میں آیا ہے جہاں ریاستوں نے سیاسی یا سماجی وجوہات کی بناء پر افراد کی جائیدادیں تباہ کی ہیں اور یہ کارروائیاں اکثر اقلیتی گروپوں اور مخصوص برادریوں کے خلاف ہوئیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل کو ’مذہبی امتیاز‘ اور ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جب بھی کسی جائیداد کو منہدم کرنے کا حکم دیا جائے، اس کے لیے عدلیہ کی نگرانی ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔ اس نے یہ بھی تجویز کیا کہ ایک آن لائن پورٹل قائم کیا جائے تاکہ متاثرہ افراد کو آگاہ کیا جا سکے اور کوئی بھی انہدام کا عمل شفاف طریقے سے مکمل ہو۔