ماہ صفر مظفر اور بد شگونی ......... بقلم: محمد حارث اکرمی ندوی
فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ( الأعراف 131)
بس جب ان کو خوشحالی پیش آتی تھی تو کہتے تھے یہ تو ہی ہمارے لیے اور جب بدحالی کا سامنا ہوتاہے تو موسی اور اسکے ساتھیوں کی نہوست بتاتے ہیں۔ سورہ اعراف ایت 131
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ( الحجرات 12)
اے ایمان والو! اکثر گمانوں سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور نہ ٹوہ میں رہو اور نہ ایک دوسرے کے پیٹھ پیچھے برائی کرو، تم میں سے کون یہ پسند کرےگا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے اس سے تم گھن کروگے، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بلاشبہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے۔
صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے، اسلامی مہینے میں اسے انفرادیت حاصل ہے، اس کے متعلق خرافات کی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے، گمان کی بنیاد وہ نحوست تھی جو فتنوں، وباؤوں ، امراض ، مصیبتوں اور حوادث کی شکل میں کبھی اس مہینے میں پیش آئی تھی۔ اس بنیاد پر یہ عقیدہ قائم کیا گیا تھا کہ صفر کا مہینہ نحوست اور الم کا مہینہ ہے۔ زمانہ جاھلیت میں لوگ اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات یعنی شادی بیاہ، ختنہ وغیرہ کی تقریبات قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے۔ اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض علاقوں کے بعض لوگوں میں یہ عقیدہ نسل در نسل منتقل ہو رہاہے، حالانکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اسکے علاوہ پائے جانے والی توہمات اور باطل نظریات کی تردید فرمائی ہے، اور اعلی الاعلان ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے شخص کو لگنے کا عقیدہ، ماہ صفر کی نحوست کا عقیدہ، پرندے کی بدشگونی کا عقیدہ یہ سب بے حقیقت ہےاور ارشاد فرمایا کہ ( لا صفر ولا عدوی ولا اھامه) چھووت چھات اور صفر کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔
مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اس قسم کی باطل نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نظریات کو اپنے پیروں تلے روند چکے ہیں، جاہلیت نے سفر کو نامرادی اور ناکامی کا پیش خیمہ بتایا تھا، اسلام نے صفر المظفر کو مسعود گردانا ہے اس مہینے کے نام کے ساتھ ہی مظفر کی صفت جوڑ دی گئی ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایام کامیابی اور سعادت کے حصول کے ہیں ۔
صفر کے متعلق یہ بھی عقیدہ پایا جاتا ہے کہ وہ ایک قسم کا سانپ ہے، جو انسان کے معدہ میں پرورش پاتا ہے، اور بھوک کی شدت میں جو تکلیف محسوس ہوتی ہے یہ وہی سانپ ہے جو ڈستا ہے ، ان سب چیزوں کی نفی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( لاصفر) کے ذریعے ایک چھوٹے سے جملہ سے فرمائی۔ بعض گمراہ لوگوں نے ماہ صفر کے متعلق ایک من گھڑت ایک من گھڑت روایت بیان کی ہے اور اسے اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ( من بشرنی بخروج صفر بشرته با الجنه) جو مجھے صفر کا مہینہ ختم ہونے کی خوشخبری دے اسے میں جنت کی بشارت دیتا ہوں ( نعوذباللہ). نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اسکی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ علماء حدیث نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عقیدوں کی اتنی مخالفت کے باوجود آج بھی بعض مسلمانوں میں جاھلیت کی بہت سی رسومات پائی جاتی ہیں، اس کا لحاظ اس درجہ رکھا جاتا ہے کہ جاھلیت بھی شرما جائے۔ عام طور پر یہ سب خرافات مردوں کے مقابلوں میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، اور انکے دماغ میں ایسے حاوی ہے کہ ہر حال میں لازمی سمجھی جاتی ہے، اللہ ہم سبھوں کو ایسے عقائد اور خرافات سے حفاظت فرمائے۔ امین