میں کسی بھی پلیٹ فارم پر پی ایم مودی سے بحث کے لیے تیار، راہل گاندھی نے ججوں کی دعوت قبول کی
نئی دہلی، 11/مئی (ایس او نیوز /ایجنسی) سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اجیت پی شاہ اور دی ہندو کے سابق ایڈیٹر ان چیف این رام کی طرف سے دی گئی دعوت کو راہل گاندھی نے قبول کر لیا ہے۔ تینوں شخصیات نے گزشتہ روز راہل گاندھی اور نریندر مودی کو کھلی بحث سے متعلق دعوت نامہ بھیجا تھا۔ اس دعوت نامہ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں یقین ہے عوامی بحث کے ذریعے ہمارے سیاسی لیڈروں کو براہ راست سننے سے شہریوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس سے ہمارے جمہوری عمل کو نمایاں طور پر مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
پی ایم مودی سے بحث کے لیے اس دعوت نامہ کو سابق کانگریس صدر راہل گاندھی نے بخوشی قبول کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم مودی اس مباحثہ کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ راہل گاندھی نے لکھنؤ کی ایک تقریب میں مباحثہ سے معتلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’میں 100 فیصد کسی بھی پلیٹ فارم پر وزیر اعظم سے ’عوامی ایشوز‘ پر مباحثہ کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن میں انھیں جانتا ہوں، وہ 100 فیصد مجھ سے مباحثہ نہیں کریں گے۔‘‘
دراصل ایک شخص نے راہل گاندھی سے سوال کیا تھا کہ ججوں نے وزیر اعظم اور آپ کے درمیان مباحثہ کے تعلق سے ایک خط لکھا ہے، ایسے میں کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ راہل گاندھی نے اس کا جواب دیتے ہوئے نہ صرف اپنی رضامندی ظاہر کی، بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر وزیر اعظم میرے ساتھ مباحثہ نہیں کرنا چاہتے ہیں تو ہماری پارٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے کے ساتھ مباحثہ کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر، دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج اے پی شاہ اور سینئر صحافی این رام کی جانب سے 9 مئی کو دونوں لیڈروں کے نام لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آپ نے مختلف حیثیتوں سے ملک کے تئیں اپنے فرائض ادا کیے ہیں۔ ہم آپ کے پاس ایک تجویز لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ یہ ہر شہری کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ 18ویں لوک سبھا کے عام انتخابات اپنے وسط میں پہنچ چکے ہیں۔ ریلیوں اور عوامی خطابات کے دوران حکمراں جماعت بی جے پی اور مرکزی اپوزیشن کانگریس دونوں کے ارکان نے ہماری آئینی جمہوریت کے بنیاد سے متعلق اہم سوالات کئے ہیں۔
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے کانگریس کو ریزرویشن، آرٹیکل 370 اور ملکیت کی دوبارہ تقسیم سے متعلق عوامی طور پر چیلنج کیا ہے۔ دوسری طرف کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے وزیر اعظم سے آئین، انتخابی بانڈ اور چین کے تئیں حکومت کے ردعمل پر سوال اٹھائے ہیں اور انہیں عوامی بحث کے لیے چیلنج بھی کیا ہے۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے سے اپنے اپنے منشور کے ساتھ آئینی طور پر سماجی انصاف کے موقف پر سوالات پوچھے ہیں۔
سرکردہ شخصیات نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ایک عوامی رکن کی حیثیت سے ہمیں تشویش ہے کہ ہم نے دونوں طرف سے صرف الزامات اور چیلنجز سنے ہیں اور کوئی معنی خیز جواب نہیں دیکھا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آج کی ڈیجیٹل دنیا غلط معلومات، غلط بیانی اور ہیرا پھیری سے بھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں یہ یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ عوام کو بحث کے تمام پہلوؤں کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی ہو، تاکہ وہ بیلٹ باکس (ووٹنگ کے وقت) میں ایک بہتر متبادل کا انتخاب کر سکیں۔ یہ ہمارے انتخابی حق رائے دہی کے موثر استعمال میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں دونوں رہنماؤں (نریندر مودی اور راہل گاندھی) کی طرف سے ان مسائل پر عوامی بحث ہونی چاہیے جس سے عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ دونوں رہنماؤں کے خیالات کو براہ راست سن کر وہ خود فیصلہ کر سکیں گے کہ کس کی حمایت کرنی ہے۔ اس سے لوگوں کے سیاسی شعور میں بھی اضافہ ہوگا اور لوگ زیادہ معلومات کے ساتھ ووٹ ڈال سکیں گے۔ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اور پوری دنیا ہمارے انتخابات پر گہری نظر رکھتی ہے۔ اس لیے ایسی عوامی بحث ایک بڑی نظیر قائم کرے گی۔