سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: حکومت نجی ملکیت پر قبضہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی
نئی دہلی ، 5/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی ) سپریم کورٹ آف انڈیا نے نجی ملکیت کے حقوق پر ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے، جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے واضح کیا کہ ہر نجی ملکیت کو کمیونٹی کا وسیلہ نہیں سمجھا جا سکتا، اگرچہ بعض خاص حالات میں کچھ نجی ملکیتیں کمیونٹی وسائل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ فیصلہ نو رکنی آئینی بنچ نے دیا ہے، جس نے 1978 کے بعد سے کئی اہم عدالتی نظائر کو ازسر نو ترتیب دیا ہے اور ملکیت کے حقوق کے تصور میں نئی جہت متعارف کرائی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں 9 ججوں کی بنچ نے اس سال یکم مئی کو اس معاملے کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارا ماننا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 31 سی کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھا جانا چاہیے۔‘‘ اس فیصلے نے واضح کر دیا کہ حکومت تمام نجی ملکیتوں کا حصول نہیں کر سکتی۔
سپر یم کورٹ نے کہا ہے کہ 1978 کے بعد جو فیصلے سماجی انصاف کی بنیاد پر سامنے آئے تھے، ان کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا، ’’سماجی فلاح کے نام پر حکومت تمام نجی ملکیتوں پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ نجی ملکیتیں کمیونٹی کے وسائل نہیں ہیں اور اس حوالے سے پچھلے فیصلے درست نہیں تھے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’سماجی ملکیت کے فلسفے کا اثر 1960 اور 1970 کی دہائی میں تھا لیکن 1990 کی دہائی میں ہندوستان نے بازار کے اصولوں کی جانب پیش رفت کی۔ ہندوستان کی معیشت اب کسی خاص اقتصادی نظریے کی طرف نہیں جا رہی، بلکہ ترقی پذیر ملک کی ضروریات کے مطابق چل رہی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ملک میں موجود مختلف قانونی و سماجی مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا۔ مختلف بنچز کی طرف سے آرٹیکل 39(بی) کی مختلف تشریحات نے اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ کیا چیز ’کمیونٹی کا وسیلہ‘ سمجھا جا سکتا ہے۔
اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کو اب اپنی نجی ملکیت کے حوالے سے اصلاحات کے لئے نئی راہیں تلاش کرنی ہوں گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مستقبل میں ملک کی معیشت اور ملکیتی حقوق کے حوالے سے ایک نیا باب کھولے گا۔