پاکستان کی قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی، سینیٹ کا بھی ساتھ
اسلام آباد، 21/اکتوبر(ایس او نیوز /ایجنسی)پاکستان کی سینیٹ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی، جس کے حق میں 65 ووٹ جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ ڈالے گئے۔ یہ اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں منعقد ہوا، جہاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کیا۔ آئینی ترمیم میں شامل 22 شقوں کی مرحلہ وار منظوری کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوا۔ اس دوران سینیٹ کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا گیا اور مہمانوں کی گیلری کو بھی خالی کرایا گیا۔ اپوزیشن نے رانا ثنا اللہ اور اٹارنی جنرل کو ایوان سے باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا، جس پر حکومتی ارکان نے ان کے بیٹھنے کے آئینی حق کا دفاع کیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل گروپ کی خاتون نسیمہ نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔پی ٹی آئی کے علامہ ناصر عباس، حامد خان، علی ظفر اور عون عباس بپی نے ترمیم کی مخالفت میں ووٹ ڈالے۔آئینی ترامیم کو شق وار منظور کیا گیا۔ 26ویں آئینی ترمیمی بل کے ذریعے سود ختم کرنے کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی۔ آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین ایوان سے باہر چلے گئے۔اس سے قبل اجلاس شروع ہوتے ہی وقفہ سوالات معطل کیے گئے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ جسے اکثریتی رائے سے منظور کر لیا گیا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی ترمیم پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔
آئینی ترمیم ایوان میں پیش کر کے بحث کی جائے۔انہوں نے کہا کہ سمجھتا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر ایک طرح سے کھلا عدم اعتماد بھی تھا اور حملے سے کم نہیں تھا۔ عجلت میں 19ویں ترمیم کی گئی۔ اور اس میں کمپوزیشن کو چینج کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان اور دیگر تنظیموں پر تنقید کی اور کہا گیا کہ 18 ویں ترمیم روح نہیں تو اس کے قریب تر کیا جائے۔پچھلے چھ سے آٹھ ہفتوں میں ڈسکشنز ہوئیں اور اس کے مطابق چار سینئر ججز مشتمل ہونے کے ساتھ چار پارلیمانی ممبرز جائیں گے۔ جن میں دو اس ایوان سے اور دو قومی اسمبلی سے شامل ہوں گے۔
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جس میں کمیشن کا حجم ایک ادارے کی طرف یعنی اعلی عدالت کی طرف کر دیا گیا۔ اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی کمی کر دی گئی۔ طے کیا گیا کہ آئینی عدالت کے بجائے آئینی بنچز کا تشکیل کر دیا جائے۔سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اگر بچایا ہے تو اس آئین نے بچایا۔ اور پارلیمان کی بنیاد میں بھی وہی آئین ہے۔ کوئی بھی اس میں رخنہ ڈالے یا ایسی چیز ڈالی جائے کہ مستقبل میں خطرہ بنے۔ اسٹیبلشمنٹ نے بار ہا مرتبہ کوشش کی کہ کسی طریقے سے آئین میں ایسی چیز ڈال دی جائے۔ کہ مستقبل میں ملک محفوظ نہ رہے۔