بلڈوزر ایکشن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اکھلیش یادو، سپریا شرینیت اور چندر شیکھر آزاد کا کیا رد عمل رہا؟
نئی دہلی، 14/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ کے 'بلڈوزر ایکشن' سے متعلق دیے گئے فیصلے کے بعد سیاسی ردعمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈران نے موجودہ حکومت کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دراصل، بدھ (13 نومبر) کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’انتظامیہ عدلیہ کی جگہ نہیں لے سکتا اور کسی بھی ملزم کے ساتھ قانونی عمل کے حوالے سے متعصبانہ سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘ اس فیصلے کے بعد مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کی کارروائیوں پر سوالات اٹھائے۔
کانگریس لیڈر سپریا شرینیت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنایا ہے اور یہ حقیقت میں بی جے پی حکومت کو آئینہ دکھانے جیسا ہے، خصوصاً اتر پردیش میں۔ پورے ملک میں بی جے پی حکومت کی جانب سے جو منمانی کارروائی کی جا رہی تھی، خواہ وہ اتر پردیش ہو یا مدھیہ پردیش، غیر قانونی ہے، ایسی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کو ملزموں کو سزا دینے کا پورا حق ہے لیکن جبراً گھروں کو توڑنا اور معاشرے کو تقسیم کرنا غیر مناسب ہے۔ ’بلڈوزر جسٹس‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ آئین ہے، قانون کی حکمرانی ہے اور اس ملک میں وہی چلے گا۔‘‘
سیسا مؤ میں ضمنی اسمبلی انتخاب کے پیش نظر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ نے اس (بی جے پی) حکومت کی علامت بن چکے بلڈوزر کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ میں حکومت کے خلاف اس فیصلے کے لیے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو لوگ گھر توڑنا جانتے ہیں اس سے آپ کیا امید کر سکتے ہیں؟ کم از کم آج ان کا بلڈوزر گیراج میں کھڑا رہے گا، اب کسی کا گھر نہیں ٹوٹے گا۔ حکومت کے خلاف اس سے بڑا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہمیں عدالت پر پورا بھروسہ ہے، ایک روز ہمارے رکن اسمبلی رہا ہو کر ہمارے درمیان آئیں گے اور ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرتے تھے۔‘‘
آزاد سماج پارٹی کے صدر چندر شیکھر آزاد نے کہا کہ ’’یہ اترپردیش کی بی جے پی حکومت کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے کہ آپ قصور ثابت ہوئے بغیر اور عدالت کے حکم کا انتظار کیے بغیر کسی کا گھر منہدم نہیں کر سکتے۔ میں اس کے لیے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘ دوسری جانب دہلی کے وزیر اور عآپ لیڈر سوربھ بھاردواج نے کہا کہ ’’یہ ملک آئین سے چلتا ہے، کسی کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ بلڈوزر کارروائی کے نام پر چل رہی یہ ’دادا گری‘ غیر قانونی ہے۔ جہاں بھی بلڈوزر کارروائی ہو رہی ہے، وہاں کی حکومت اور ریاستوں کے ہائی کورٹ کو پہلے ہی اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔‘‘