حیدرآباد سے بھٹکل آنے کے دوران مسلم نوجوان کی جم کر پیٹائی؛ متعلقہ بس کو بھٹکل میں روکنے کی کوشش پولس نے بنائی ناکام؛ ناراض عوام نے پولس کو لیا آڑے ہاتھ
بھٹکل 2/جولائی (ایس او نیوز) حیدرآباد سے نجی بس پر بھٹکل آنے کے دوران راستے میں ہی ایک نوجوان کی جم کر پیٹائی کرنے کی واردات پیش آنے کے بعد متاثرہ نوجوان کی حمایت میں آئے ہوئے عوام اُس وقت پولس پر بھڑک اُٹھے جب متعلقہ بس کو عوام کی طرف سے بھٹکل میں روکنے کی کوشش کو پولس نے ناکام بنادیا۔واردات منگل شام سات بجے پیش آئی۔
بھٹکل حنیف آباد کارہنے والا 36 سالہ مُجیب الرحمن اتوار شام کو حیدرآباد سے مینگلور جانے والی بس پر سوار ہوکر بھٹکل آنے کے لئے نکلا تھا، مُجیب کاکہنا ہے کہ بس جب رات قریب دس گیارہ بجے کرناٹک سرحد میں داخل ہوکر کوپّل سے آگے گنگاوتی نامی مقام پر پہنچی تو اس نے بس کنڈکٹر اور بس ڈرائیور سے کہا کہ اسے بخار ہوا ہے، لہٰذا کوئی دوائی ہو تو دیں، اس دوران بس پر سوار دو مسافروں نے اس سے اس کا نام اور مقام پوچھا، جب اِس نے اپنا نام مُجیب اور مقام بھٹکل بتایا تواسی بات کو لے کر پہلے دو مسافروں نے اسے گالیاں دیتے ہوئے مارنا شروع کردیاپھر بس کنڈیکٹر سے اسے ایک گولی دی جسے اس نے بخار کی گولی سمجھ کر کھالیا، مگر گولی کھاتے ہی اس کی طبیعت مزید بگڑنے لگی، ایسے میں دو مسافروں کی طرف سے حملہ کے ساتھ اس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینی شروع کی ، جب مجیب نے بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے مدد کرنے کہا تو اُنہوں نے مدد کرنے کے بجائے اُلٹایہ کہہ کر اسے مزید گالیاں اور دھمکیاں دینی شروع کی کہ وہ اسے راستے میں ہی ختم کردیں گے، اس لئے جو بھی دعا اور نماز کرنی ہے ابھی کرلے۔بدلتے حالات سے پریشان مُجیب نے ایک جگہ پر بس رُکتے ہی یا بس کی رفتار کم ہوتے ہی بس سے باہر چھلانگ لگاکر دوڑنا شروع کردیا۔ مُجیب کا کہنا ہے کہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اور بھٹکل کارہائشی ہونے کی وجہ سے اُن لوگوں نے اس پر حملہ کیا تھا ۔ مُجیب کا یہ بھی الزام ہے کہ جب وہ کسی طرح بس سے باہر چھلانگ لگاکر بھاگناشروع کیاتو دونوں مسافروں نے بس ڈرائیور اور کنڈکٹر کے ساتھ مل کر گنگاوتی میں اپنی جان پہچان کے لوگوں کو فون کرکے اس پر حملہ کرنے کے لئے اُکسایاہوگا ، کیونکہ جیسے ہی وہ بھاگ کر ایک کھیت میں گھسا تو متعلقہ علاقہ کے لوگ اس کے پیچھے لگ گئے اور چور چور کہتے ہوئے اس کی بری طرح پیٹائی شروع کردی۔ اسے بیلٹ اور لکڑے سے مارا گیا۔مار کھاتے کھاتے وہ کسی نہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا جس کے بعد بعض مسلم لوگوں نے اس کی مدد کی اور احوال سننے کے بعد اسے آج منگل صبح دوسری بس کے ذریعے بھٹکل روانہ کردیا۔
مُجیب منگل شام قریب چار بجے بھٹکل سرکاری اسپتال پہنچا، اس کی پیٹھ اور کمر پر پیٹائی کے بہت خراب نشان دیکھے گئے ہیں، جبکہ اس کے چہرے اور انکھوں کے قریب بھی مُکّا مارنے کی نشان پائے گئے ہیں۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی حنیف آباد کے کافی لوگوں کے ساتھ ساتھ زخمی مُجیب کی ماں، بیوی، بہن، بھائی اور والد سمیت کافی ددیگر رشتہ دار بھی سرکاری اسپتال کے باہر جمع ہوگئے۔ لوگوں نے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حملہ آوروں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی مانگ کرنے لگے۔ اس دوران پتہ چلا کہ مُجیب نے جس نجی بس کے ذریعے حیدرآباد سے بھٹکل کی ٹکٹ بنائی تھی وہ بس صبح چھ بجے ہی بھٹکل ہوتے ہوئے مینگلور کے لئے روانہ ہوچکی ہے جبکہ وہی بس شام کو مینگلور سے واپس حیدرآباد کے لئے نکلتی ہے اور شام قریب چھ یاسات بجے بھٹکل پہنچتی ہے۔ اس بات کی بھنک ملتے ہی کافی لوگ متعلقہ بس کو بھٹکل میں روکنے کے لئے قدوائی کراس روڈ نیشنل ہائی وے پر جمع ہونا شروع ہوگئے، لیکن پولس کو اطلاع ملتے ہی پولس نے تمام لوگوں کوو ہاں سے ہٹانا شروع کردیا۔ اس دوران متعلقہ بس بھٹکل پہنچی تو پولس نے گورٹے کراس سے ہی بس کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے قدوائی روڈ سے آگے بڑھایا۔ بتایا گیا ہے کہ متعلقہ بس کا بھٹکل سکینڈ پیٹرول پمپ کے قریب اسٹاپ رہتا ہے، جہاں نوجوان اس بس کو روک کر واقعے کے تعلق سے جاننا چاہتے تھے کہ آخر ہوا کیا تھا اور بھٹکل کے نوجوان کی پیٹائی کس نے اور کیوں کی تھی، مگر پولس نے عوام کی بس کو روکنے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ بس جب آگے کے لئے نکل گئی تو عوام ااور پولس آمنے سامنے آگئے اورعوام بالخصوص خواتین نے نیشنل ہائی وے کنارے پولس کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولس نے بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر کو واقعےکے تعلق سے پوچھے بغیر جانے کیسے دیا،متعلقہ بس پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، اُس کی فوٹیج کی جانچ کیوں نہیں کی اور اُس فوٹیج کو اپنے قبضے میں لے کر جانچ کیوں نہیں کی گئی ؟ خواتین نے پولس پربس کمپنی والوں سے رشوت لے کربس ڈرائیور اور کنڈکٹر کو جانے دینےکا بھی الزام عائد کیا۔ اس موقع پر بھٹکل ٹاون پولس انسپکٹر گوپی کرشنا کا کہنا تھا کہ ناراض احتجاجیوں کو جو کچھ بھی شکایت ہے، وہ پولس تھانہ پہنچ کردرج کرائیں، لیکن نیشنل ہائی وے پر ہنگامہ نہ مچائیں۔ اس دوران نیشنل ہائی وے پر کچھ دیر کے لئے ٹریفک نظام متاثر ہوا لیکن پولس نے زائد فورس منگوا کر لوگوں کو ہائی وے پر رکاوٹیں پیدا کرنے نہیں دیا ۔
ناراض احتجاجی بعد میں قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم دفتر پہنچ گئے اور بھٹکل پولس پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے مسلم نوجوان کی بری طرح پیٹائی کی واردات پیش آنے کے باوجود بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے خلاف کسی بھی طرح کی کاروائی نہ کرنے اور متعلقہ بس کو اانکوائری کئے بغیر بھٹکل سے جانے دینے پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔ ناراض لوگوں نے تنظیم ذمہ داران پر زور دیا کہ تنظیم کی قیادت میں ہی پولس کے خلاف احتجاج ہونا چاہئے اور حملہ آوروں کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیئے۔ اس موقع پر تنظیم صدر عنایت اللہ شا ہ بندری نے پولس انسپکٹر سے فون پر واقعے کے تعلق سے جانکاری حاصل کی اورپولس کو متنبہ کرایا کہ واقعے کے تعلق سے اگر پولس تھانہ میں معاملہ درج نہیں کیاگیا اور خاطی حملہ آوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو تنظیم کو میدان میں اُترنا پڑے گا۔ خبرلکھے جانے تک کئی احتجاجی بھٹکل ٹاون پولس تھانہ کے باہر جمع تھے جبکہ زخمی مُجیب الرحمن کو بھٹکل سرکاری اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔