لبنان 30/اکتوبر (ایس او نیوز) حزب اللہ کے نئے منتخب سربراہ نعیم قاسم نے واضح کیا ہے کہ مسلح لبنانی تنظیم اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی اور اس کے خلاف مزاحمتی راستے پر قائم رہے گی۔
انٹرنیشنل نیوز ایجسنی رائٹرز کے مطابق قاسم نے 29 اکتوبر کو منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ اپنے پیشرو حسن نصراللہ کی طے شدہ حکمت عملی پر عمل پیرا رہیں گے، جو ستمبر میں لبنانی دارالحکومت پر اسرائیلی فضائی حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔
انہوں نے ایک خفیہ مقام سے اپنے پہلے ٹیلیویژن پیغام میں کہا، "ہم اپنے سیاسی فریم ورک کے اندر رہ کر جنگی منصوبے کو جاری رکھیں گے اور مزاحمتی راستے پر ثابت قدم رہیں گے۔" انہوں نے مزید کہا، "اگر اسرائیل جارحیت روکنے کا فیصلہ کرتا ہے تو ہم اسے قبول کریں گے لیکن اپنی شرائط کے مطابق۔"
قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ حزب اللہ جنگ جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے، انہوں نے کہا، "ہم جنگ بندی کے لئے درخواست نہیں کریں گے... ہم ہر صورت میں لڑتے رہیں گے، چاہے کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔"
قاسم کا یہ خطاب ایسے وقت میں آیا ہے جب بین الاقوامی ثالث لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ستمبر میں حزب اللہ کے اراکین پر دھماکوں اور نصراللہ کی شہادت سے "تنظیم کو نقصان پہنچا" ہے، لیکن انہوں نے بتایا کہ نصراللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ نے صرف آٹھ دنوں میں اپنی صفیں دوبارہ ترتیب دی ہیں۔
ایرانی میڈیا کے مطابق، قاسم نے ایران کی غیر مشروط حمایت پر زور دیا اور کہا کہ "ایران بغیر کسی شرط کے ہماری حمایت کرتا ہے، اور ہم کسی اور کے لیے نہیں بلکہ لبنان کے لیے لڑ رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "حزب اللہ کی جنگی صلاحیتیں برقرار ہیں اور طویل جنگ کے لیے تیار ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ 1 اکتوبر سے جنوبی لبنان میں اسرائیلی فورسز کی زمینی جارحیت کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ حزب اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک ڈرون نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے گھر کو نشانہ بنایا، تاہم نیتن یاہو محفوظ رہے۔
قاسم نے تصدیق کی کہ حزب اللہ لبنان کے پارلیمنٹ اسپیکر نبیہ بری کے ساتھ رابطے میں ہے، جو امریکا کے ساتھ مذاکرات میں لبنانی اہم رابطہ کار ہیں اور جو اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے متعدد تجاویز دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ابھی تک کوئی ایسا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا جس پر اسرائیل متفق ہو اور جسے ہم قابل قبول سمجھیں۔"