اس بار مسلمان ناکام کیوں؟ کہاں ہے1985کا پرسنل لاء بورڈ،جس کی حکمت عملی نے حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا ؟ (روزنامہ سالار کی خصوصی رپورٹ)
بنگلورو،یکم اگست : مودی حکومت کی ہٹ دھرمی، سیاسی چال بازی اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سیاسی غیرشعوری، مسلم تنظیموں کی غیر دانشمندی اور پورے مسلمانوں کی نااہلی و آپسی نااتفاقی کی وجہ سے ایک نشست میں تین طلاق کا بل راجیہ سبھا سے بھی منظور ہوگیا-اب اسے صدر ہند کے پاس رسمی طور پر بھیجاجائے گا جہاں دستخط کے بعد وہ ایک ایسی سیاہ تاریخ بن جائے گا،جس میں تین طلاق دینے والے مسلم مردوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے گا اور بچوں سمیت بیوہ خاتون کو سڑکوں پر دربدر ٹھوکر کھانے کیلئے چھوڑ دیاجائے گا-اب تو سمجھ لیناچاہئے کے مودی حکومت کیا چاہتی ہے؟مسلمانوں کو ہندوستان میں وہ کیا حیثیت دینا چاہتی ہے؟
مسلمانوں کے عائلی مسائل کے استحکام کیلئے قائم مسلم پرسنل لاء بورڈ کیا اپنی خدمات ایماندارانہ طور پر انجام نہیں دے رہے ہیں؟یا پھر اس کی حکمت عملی پر آر ا یس ایس اورمودی کی سیاسی بازی گری غالب آگئی ہے؟ ہندوستان میں مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد یقینا مسلمانوں کیلئے خوش آئندہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی نشیب و فراز سے علمائے کرام کی دوری نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ آنے والے دنوں کیلئے بہت ہی نقصاندہ-اس کے علاوہ وہ طبقہ جس نے علماء کو سیاست سے دور کرنے کا بیڑا اٹھارکھاہے،جسے معاشرہ میں انٹلکچول یا دانشور قراردیاجاتاہے اور یہ وہی طبقہ ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقلمند اور اس روئے زمین پر سب سے زیادہ علم و فہم رکھنے والا تصور کرتاہے،مودی کی سیاسی بازی گری اور سیاسی چال بازی کو کیوں نہیں سمجھ سکا؟ وہ تمام سکیولر پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں کے سہارے ایوان تک پہنچنے میں کامیاب ہیں،انہوں نے ایوان کا بائیکاٹ کرکے تین طلاق کے معاملہ میں مودی حکومت کی بلاواسطہ طور پر کیوں حمایت دی؟-آج سب خاموش ہیں اور مسلمانوں کے دشمن قرار دئے گئے لوگ یہ کہتے ہوئے خوشیاں منارہے ہیں کہ مسلم علماء،مسلم دانشوروں،مسلم اسکالروں،مسلم تنظیموں اور مسلم جماعتوں نے مسلم خواتین پر تین طلاق کے معاملہ میں مظالم کے پہاڑ توڑے-آج مودی حکومت میں اسے انصاف مل گیاہے-
اس دعوے کو غلط اس وجہ سے قرار دیاجائے گا کہ تین طلاق کے قانون میں بیوہ عورتوں کی دیکھ بھا ل کرنے والا کوئی نہیں ہے اور قانون کے لحاظ سے وہ مطلقہ عورتیں سربازار ہوجائیں گی-سماجی اور سیاسی دانشور مودی کی اس سیاسی سازش کو سمجھنے میں صد فی صد ناکام کیوں رہے جو انہوں نے راجیہ سبھا میں گزشتہ دنوں رچی تھی-جے ڈی یو،ٹی آر ایس اور انا ڈی ایم کے کے اراکین کو ایوان بالا سے واک آؤٹ کراکے مودی نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا-جس کا نتیجہ ہے کہ تین طلاق بل کی حمایت میں 99 جبکہ مخالفت میں 84 ووٹ پڑے -
یہ ایک حقیقت ہے کہ دین اسلام میں مداخلت کرکے مودی حکومت نے آئین اور دستور کی توہین کی ہے جو مسلمانان ہند کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے-اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تین طلاق بل خودمسلم خواتین کے حقوق کے خلاف ہے اور ان کی الجھنوں، پریشانیوں اور مشکلات میں اضافے کا سبب ہے، اسی طرح یہ شریعت اسلامی میں کھلی ہوئی مداخلت اور آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی بنیادی دفعہ اورسپریم کورٹ کے تین طلاق کے سلسلہ میں دیے گئے حالیہ فیصلے کے خلاف بھی ہے-لیکن قانون بن جانے کے بعد اپنے دین اسلام کے تحفظ کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ ا،علماء اور دانشوروں کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے بل کے مشمولات متضاد ہیں، جہاں ایک طرف اس بل میں تین طلاق کے بے اثر اور باطل ہونے کی بات کہی گئی ہے وہیں تین طلاق کو جرم قرار دے کر تین سال کی سزا اور جرمانہ کی بات موجودہے، سوال یہ ہے کہ جب تین طلاق واقع ہی نہیں ہوگی تو اس پر سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے-اس پر سوالات کھڑے کئے گئے لیکن اس کا مودی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا - تحفظ عقائد کی خاطر علماء اور دانشوروں کا قدم کیا ہوگا؟-
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کا دائرہ خاصا وسیع ہے،ان کے کارنامے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں -بورڈ کا پہلا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کو عائلی قوانین پر متحد و متفق کیا-ہندوستانی مسلمانوں میں عائلی قوانین کے تئیں احساس تحفظ پیدا کیا-بورڈ کی تحریک پر حکومت ہند نے 1978ء میں لے پالک بل واپس لے لیا- 1980ء میں جب یہ بل دوبارہ پیش کیا گیا تو مسلمانوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا-1975ء میں ایمرجنسی کے نفاذ اور جبری نس بندی کے سخت ہنگامی حالات کے دوران میں بورڈ نے دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اعلان کیا کہ نس بندی حرام ہے-1978ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلے کے مطابق حکومت کو مفاد عامہ کیلئے مذہبی مقامات کی زمین قبضانے کی اجازت دی گئی تھی- بورڈ کی تحریک پر یہ فیصلہ واپس لیا گیا-1986 کے شاہ بانو کیس میں شوہر پر یہ لازم کیا گیا تھا کہ وہ عورت کے دوسرے نکاح تک اسے نان و نفقہ دے گا- یہ بات شریعت سے متصادم تھی- چنانچہ بورڈ نے ملک بھر میں زبردست تحریک چلائی- 6 مئی 1986ء کو حکومت ہند کو مسلم مطلقہ بل منظور کرنا پڑا-حکومت ہند عرصے سے نکاح کے لازمی رجسٹریشن کا قانون لانا چاہتی تھی- اس سے پہلے ہی بورڈ نے ماڈل نکاح نامہ ترتیب دیا- میاں بیوی اگر اس نکاح نامے پر دستخط کر دیں تو انھیں باہمی اختلافات نپٹانے کے لیے عدالت جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی- دارالقضا یا شرعی پنچایت کے ذریعے مسئلہ حل ہو جائے گا-بورڈ نے دوسرے بہت سے مقدموں کے ساتھ بابری مسجد کا مقدمہ عدالت عالیہ میں لڑا اور اب عدالت عظمی ٰمیں ایک مستقل فریق کی حیثیت سے اس مقدمہ کی پیروی کر رہا ہے-یہ زریں کارنامے بورڈ کے ہیں تو پھر آج وہ اتنا خاموش کیوں ہے؟ قرآن وہی،حدیث وہی تو پھر دلائل دینے اور کورٹ کے سامنے انہیں پیش کرنے میں سستی کیوں ہے؟کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے؟-ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ہر مسلم کے ذہنوں پر کچوکے لگارہے ہیں لیکن اس کے باوجود تین طلاق کے معاملہ میں ہرایک مسلم کی نظر مسلم پرسنل لاء بورڈ،علمائے کرام اور دانشوران وقت پر ہی پر ٹکی ہوئی ہے-
(بشکریہ روزنامہ سالار، بنگلور)
(مہمان اداریہ کے اس کالم میں دوسرے اخبارات کے ادارئے اوراُن کے خیالات کو پیش کیا جاتا ہے ، جس کا ساحل آن لائن کے ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)