کون بنے گا 'کنگ' اور کون بنے گا ' کنگ میکر'؟! - لوک سبھا کے نتائج کے بعد سب کی نظریں ٹک گئیں نتیش اور نائیڈّو پر
نئی دہلی، 5 / جون (ایس او نیوز) لوک سبھا کے اعلان شدہ انتخابی نتائج نے منگل کو یہ ثابت کر دیا کہ پوسٹ پول سروے ہمیشہ درست نہیں ہوتے کیونکہ این ڈی اے اتحاد کی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں جو توقعات بنی یا بنائی گئی تھیں وہ پوری طرح خاک میں مل گئیں۔
دریں اثنا، حزب اختلاف کے اتحاد 'انڈیا' نے اپنے مارجن کو بڑھاتے ہوئے پوسٹ پول سروے اور ایکزٹ پول کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔ اس پس منظر میں سیاسی پنڈتوں کے حساب و کتاب میں نہ رہنے والے دو سینئر سیاستدان ایک بار پھر منظر عام پر آ گئے ہیں جو مرکز میں نئی حکومت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ہیں ۔ ان میں سے ایک جے ڈی یو کے نتیش کمار اور سینئر سیاست دان این چندرابابو نائیڈو ہیں ۔ لوک سبھا کی اتنی زیادہ سیٹیں ان دونوں لیڈروں کی ٹوکری میں ہیں کہ اب یہ لوگ یا تو کنگ میکر ہوں گے یا خود 'کنگ' بھی بن سکتے ہیں ۔
نتیش کی جنتا دل (یو) نے بہار میں اپنے سینئر پارٹنر بی جے پی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ دوسری طرف آندھرا پردیش میں تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے شاندار جیت درج کی ہے ۔ اس لیے اگر این ڈی اے کو حکومت بنانا ہے تو اسے ان دونوں کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ دونوں لیڈر قومی سیاست کا مرکز بن گئے ہیں ۔
ادھر 'انڈیا' اتحاد نے بھی دونوں رہنماؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جو این ڈی اے کے لیے درد سر کا سبب بن سکتی ہیں ۔
انتخابی نتائج سامنے آتے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ پہلے ہی نائیڈو کو فون کر چکے ہیں اور مرکز میں حکومت سازی پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں ۔
کس کی حمایت کریں گے نتیش اور نائیڈو؟:یہ سوال آج ہر کسی کی زبان پر ہے ۔ محض یہ قیاس آرائی ہی کیوں نہ ہو مگر سوچا یہ بھی جا رہا ہےکہ این ڈی اے کو حکومت بنانے سے دور رکھنے کے لیے 'انڈیا' اتحاد کو درکار تعداد فراہم کرنے میں کیا یہ لیڈران کلیدی کردار ادا کریں گے؟
بظاہر جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی این ڈی اے کے اٹوٹ انگ ہیں ۔ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ 'انڈیا' اتحاد نے اپنی طاقت میں اضافہ کیا ہے، ان دونوں پارٹیوں کی جانب سے 'انڈیا' بلاک کے ساتھ ہاتھ ملانے کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ جبکہ نتیش کمار نے جس طرح سیاسی دھڑے بدلنے کا ریکارڈ بنایا ہے، اس کے پیش نظر انہیں سیاسی حلقوں میں 'پلٹو چاچا' کے لقب سے بھی نوازا جاتا ہے ۔ انتخابات سے قبل افواہیں تھیں کہ نتیش کی صحت ٹھیک نہیں ہے ۔ وہ بڑے سیاسی جلسوں میں کم ہی نظر آتے تھے۔ جب وزیر اعظم مودی نے پٹنہ اور بہار کے بڑے شہروں میں ریلیاں کیں تب بھی نتیش کی غیر موجودگی سب نے نوٹ کی تھی ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ صورتحال بدل گئی ہے اور یہ شاندار انتخابی جیت نتیش کمار کے اندر مستقبل کی قیادت کرنے کا اعتماد جگا سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جے ڈی یو نہ صرف بہار میں بلکہ ملکی سیاست میں ایک اہم قومی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے ۔
کس طرف ہوگا نتیش کا جھکاؤ:جے ڈی یو لیڈروں نے دعویٰ کیا ہے کہ دوستی نبھانے کا دھرم نتیش جانتے ہیں ۔ اپوزیشن نے انہیں ہلکے میں لیا ہے ۔ اس بار نتیش دھڑا نہیں بدلیں گے اور ہم این ڈی اے کے ساتھ اپنا اتحاد جاری رکھیں گے ۔
کانگریس اور بی جے پی دونوں اب نتیش کو بہلا رہے ہیں ۔ بی جے پی نے انہیں این ڈی اے کنوینر کے عہدے کی پیشکش کی ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ 9 بار بہار کے وزیر اعلی رہ چکے نتیش اب ہندوستانی سیاست کو نیا موڑ دے سکتے ہیں ۔
کیا ہوگا نائیڈو کا لائحہ عمل : آندھرا پردیش میں بھی چندرا بابو نائیڈو اپنی سیاسی طاقت اور مستقبل کو سنوارنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ ان کی ٹی ڈی پی نے آندھرا پردیش میں لوک سبھا سیٹوں میں بڑا حصہ حاصل کیا ۔ اور اب جو ملکی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کی باری ہے تو اس میں ان کی سیاسی ذہانت اور دوراندیشی کا بھی امتحان ہو جائے گا ۔
چندرا بابو نائیڈو نے اس سے پہلے ریاستی اور قومی سطح کی سیاست میں مختلف جماعتوں کے ساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر اشتراک کیا ہے۔ اب ہمیں انتظار کرنا اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اور ان کی پارٹی دہلی کے مرکزی اسٹیج پر کیا کردار ادا کرے گی ۔
انڈیا الائنس کو اکثریت نہیں ملی لیکن توڑ دیا بی جے پی کا گھمنڈ : لوک سبھا انتخابات2024 کے نتائج نے بھلے ہی انڈیا الائنس کو اکثریت نہیں دی ہے، لیکن بی جے پی کا گھمنڈ ضرور توڑ دیا ہے۔حالانکہ بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے نے اکثریت کے عدد272کو پار کر لیا ہے لیکن نہ صرف وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کا 400 پار کا دعو یٰ نا کام ہو گیا بلکہ بی جے پی بھی 240 تک سمٹ کر رہ گئی ہے اور اسے 63 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ کانگریس نے زبردست واپسی کرتے ہوئے 99 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی اور جہاں این ڈی اے 292 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوا وہیں انڈیا اتحاد نے زبردست مقابلہ کرتے ہوئے 234 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
خاص طور پر رائے بریلی اور امیٹھی میں کانگریس نے جیت حاصل کر کے بی جے پی کو سخت جھٹکا دیا ہے۔ رائے بریلی سے جہاں راہل گاندھی نے جیت حاصل کی وہیں ا میٹھی سے کابینی وزیر اور بی جے پی امیدوار اسمرتی ایرانی کو شکست دے کر کانگریس کے کشوری لال نے جیت حاصل کی ہے۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ یوپی ، مہاراشٹر، ہریانہ، راجستھان اور مغربی بنگال میں نقصان ہوا اور اس کی سیٹیں گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے مقابلے کم ہوگئی ہیں۔
یوپی میں اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی نے بی جے پی کو دھول چٹاتے ہوئے 38سیٹوں پر کامیابی حاصل کی وہیں کانگریس نے 6 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ یوپی میں بی جے پی کو صرف 33سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی اور اسے 29 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے 29 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے وہیں بی جے پی کو 12 سیٹیں ہی ملی ہیں اور اسے6 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔
اسی طرح مہاراشٹر میں بھی بی جے پی کو 13 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے اور اسے صرف 10 سیٹوں پر کامیابی مل سکی ہے۔
وہیں کرناٹک میں بھی بی جے پی کو 17 اور پارنٹر جے ڈی ایس کو دو سیٹوں پر کامیابی ملی لیکن 7 سیٹوں کا نقصان ہوا ہے۔
ہریانہ میں بھی 10 سیٹوں میں سے بی جے پی کو صرف 5 سیٹیں ہی مل پائی ہیں۔ اور 5 سیٹوں پر کانگریس نے جیت حاصل کی ہے۔
اس دوران کانگریس سمیت اپوزیشن پارٹیوں نے ووٹوں کی گنتی کی ست رفتار پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی مقامات پر گنتی کی رفتارست کی جارہی ہے۔ یہ اطلاع الیکشن کمیشن کو بھی دی گئی ہے۔