آج کی صورت حال یہ ہے کہ بازار میں کچھ ہورہا ہے اور میڈیا کچھ اور دکھا رہا ہے، مظلوم کو ظالم، مقتول کو قاتل، محروم کو خوش بخت اور فقیر کو سرمایہ دار بنا کر پیش کرنا میڈیا کے لیے چٹکی کا کھیل ہوگیا ہے.
کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر دکھانا کوئی بھاری کام نہیں رہا، جس کا مکمل فائدہ الیکٹرانک میڈیا اٹھا رہا ہے، آج ٹیلیویژن پر نشر ہونے والے اکثر نیوز چینل فسطائی طاقتوں اور گھوٹالہ باز حکمرانوں کے زرخرید غلام ہیں، وہ نیوز اینکرز جن کا کام عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا، عام انسان کی پریشانیوں پر گفتگو کرنا اور کرپشن، فساد، غربت و حکمرانوں کی گندی سیاست پر سوال کھڑے کرنا تھا؛ آج وہ ملک کے مافیاؤں سے موٹی رقمیں وصول کرنے کے بعد سیاہ کو سفید کرکے دکھانے میں مصروف ہیں؛ یہ کوئی ذاتی قیاس آرائیاں نہیں ہیں؛ بلکہ ہر دماغ والا غور کر سکتا ہے اور اپنی منصف نگاہوں سے دیکھ کر نتیجہ نکال سکتا ہے کہ میڈیا کس قدر بکاؤ ہوچکا ہے.
تعجب تو یہ ہے کہ چند وہ چینل جنہیں فرقہ پرست اداروں اور بدکردار سیاست دانوں سے کچھ خاص فائدہ بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہ دوسرے چینلوں کی اندھی تقلید یا چند سکوں کی توقع میں وہی کاذبانہ اور منافقانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں.
در اصل ہمارے ملک ہندوستان میں سیدھے سادھے لوگوں کے ذہنوں کو مذہب یا ترقی کا جھانسا دے کر تشدد کا عادی بنا یا جارہا ہے، ان کی سوچ کا کارواں محبت کی راہ سے ہٹ کر نفرت کی پٹری پر چلنے لگا ہے، ان کو سچائی سے دور رکھا جارہا ہے اور جھوٹ کو اتنی بار دکھایا جارہا ہے کہ وہ اسے سچ مان لیں.
بی.جے.پی کی حکومت بننے کے بعد اس جھوٹ کی دنیا کو کافی فروغ ملا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ ایک بے قصور انسان کو گاؤں کے شر پسند افراد مل کر —صرف اس شبہ پر کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت ہے— قتل کر ڈالتے ہیں اور میڈیا اس مقتول اور اس کے اہل خانہ کو ہی مجرم بناکر پیش کرتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان کی جانوں کے دشمنوں کو "جانور سیوک" کا نام دے کر سراہا جارہا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جے.این.یو کے بے قصور طلبہ پر— صرف اس لیے کہ انہوں نے ملک میں جاری عدم رواداری کے خلاف آواز اٹھائی— دیش دروہی کا الزام لگادیا جاتا ہے؟ آخر کس لیے فلمی اداکار عامر خان کے ایک چھوٹے سے جملے کو— جو حقیقت میں حکمرانوں کی کارکردگی سے بے اطمینانی کا اظہار تھا— بتنگڑ بنا کر اس کو ملک کا غدار تک کہہ دیا جاتا ہے؟ آخر کس لیے ملک میں غنڈہ راج کے خلاف آواز اٹھانے اور غریبوں و مظلوموں کے لیے لڑنے والے لوگوں کو مجرم بناکر کھڑا کردیا جاتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں حق کی آواز اٹھانے والوں کو میڈیا برداشت کرنے پر راضی نہیں؟ یہ سب دلائل و شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کا اسّی فیصد میڈیا اور نوے فیصد نیوز اینکرز دل، دماغ اور زبان و قلم سمیت فروخت ہوچکے ہیں.
حال فی الحال کا منظرنامہ بھی عجیب تر ہے، ہزار پانچ سو کے نوٹ پر پابندی کے لیے مودی کے جاری کردہ فرمان کے بعد ملک کی پچاسی فیصد عوام طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہے، تجارت بند، دکانیں مقفل، کاروبار ٹھپ اور مزدور بے بس نظر آرہے ہیں، غریب کے گھر کھانے کو کچھ نہیں، میڈیم کلاس لوگوں کے پاس جو نقدی ہے وہ چلنے کے قابل نہیں، دکانداروں سے لے کر ٹھیکہ داروں تک سبھی پریشان ہیں؛ اور یہ سب کچھ لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے؛ لیکن آپ ٹی.وی پر کوئی سا نیوز چینل آن کیجیے تو آپ کو "جے جے مودی" "واہ واہ مودی" کے نعرے سنائی دیں گے، ایک طرف عوام مودی صاحب کو گالیوں سے نواز رہی ہے اور ایک طرف ان نیوز اینکرز کا کہنا ہے کہ ہر آدمی مودی کے اس اقدام کی تعریف کر رہا ہے، حقیقت میں لوگ پریشان حال ہیں اور میڈیا کے مطابق سب خوش حال نظر آرہے ہیں، ایک طرف ملک کے اکثر شہروں کے اے.ٹی ایم ٹھپ پڑے ہوئے ہیں اور ایک طرف میڈیا کا دعوٰی ہے کہ ہر آدمی روزانہ اے.ٹی ایم سے دوہزار نکال سکتا ہے، ایک طرف شہروں کے بینکوں میں رقم ختم ہے یا نا کے برابر ہے جس کی وجہ سے چار ہزار کے بجائے لوگوں کو صرف پانچ پانچ سو روپے دے کر ٹرخا دیا جارہا ہے اور نیوز چینلوں کی رپورٹ کے مطابق ریزرو بینک کے پاس بےشمار پیسہ اور نوٹ ہیں، ایک طرف عوام سرکار کے اس جلدبازی کے فیصلے سے پریشان ہے تو دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا، نیوز اینکرز، فلمی اداکار، بزنس مین، مافیا گروپ اور گھوٹالہ باز کمپنیاں اس اعلان سے بہت خوش ہیں اور اپنی خوشی کا اظہار بھی کر رہے ہیں، آخر کچھ تو دال میں کالا ہے!! یا پھر پوری دال ہی کالی ہے. دیش کی جنتا نے یہ پریشانی خود مول لی ہے، بی.جے.پی کے جھوٹے وعدوں کے سیلاب میں بہہ جانے والوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے جس کا احساس انہیں اب ہورہا ہے؛ لیکن حکومت کی گدی پر بیٹھنے والے الیکٹرانک میڈیا کو خرید کر عوام کے ذہنوں سے اس احساس کو ختم کر دینا چاہتے ہیں؛ لیکن ان کے اس منصوبے پر پانی پھیرنے کا کام بھی "سوشل میڈیا" اردو پرنٹ میڈیا اور چند غیر بکاؤ نیوز اینکرز کر رہے ہیں. ہمیں امید ہے کہ ہزار ہا چال بازیوں اور منصوبوں کے بعد بھی مکاروں کی مکاریاں اور لٹیروں کے اصلی چہرے سامنے آکر رہیں گے کیوں کہ جھوٹ کا میدان کتنا ہی وسیع ہوجائے جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے. اور تخت نشینوں کے لیے مثل مشہور ہے "ہر کمالے را زوالے"
نوٹ: اس کالم میں شائع مضامین، مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں، جس کا ادارئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔۔