شادی شدہ ہندو خاتون مذہب تبدیل کرنے پر ازدواجی حقوق سے محروم ہوجائے گی ۔ کرناٹکا ہائی کورٹ کا فیصلہ

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 7th November 2023, 11:25 PM | ریاستی خبریں |

بینگلورو 7 / نومبر (ایس او نیوز) کرناٹکا ہائی کورٹ نے ازدواجی حقوق سے متعلق ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شادی شدہ ہندو خاتون اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی بن جاتی ہے تو پھر وہ اس شوہر سے اپنے ازدواجی حقوق طلب کرنے کی حقدار نہیں رہے گی ۔ 

    بتایا جاتا ہے کہ ایک ہندو سے کرسچین بننے والی خاتون نے اپنے شوہر پر گھریلو جھگڑے اور جسمانی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے میجسٹریٹ کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے شوہر سے معاوضہ د لایا جائے ۔ اس کے جواب میں شوہر نے بیوی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ بیوی اپنی مرضی سے اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے ۔ اس کی غفلت کی وجہ سے ایک بیٹے کی موت واقع ہوئی ہے ۔ بیوی نے ہندو دھرم چھوڑ کر عیسائی مذہب قبول کیا ہے ۔ ایک بیٹی کو بھی عیسائی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ میں فالج زدہ شخص ہوں ۔ اس وجہ سے میں کسی قسم کا معاوضہ دینے کے قابل نہیں ہوں ۔ اس لئے بیوی کی اپیل کو خارج کر دیا جائے ۔ 

    شوہر کے بیان اور فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر میجسٹریٹ کی عدالت میں بیوی کی عرضی خارج کر دی گئی تھی ۔ جس کے خلاف بیوی نے ایڈیشنل سٹی سول اینڈ شیشنس کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ سال 2015 میں سیشنس کورٹ نے شوہر کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو زندگی گزارنے کے لئے 4 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے ۔ 

    سیشنس کورٹ کے اس حکم کے خلاف شوہر نے ہائی کورٹ میں کریمنل ریویو پیٹیشن داخل کی تھی جس پر سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا  کہ میجسٹریٹ کورٹ اور سیشنس کورٹ میں بیوی کی جانب سے یہ بات ثابت نہیں کی جا سکی کہ اس کے ساتھ گھریلو تشدد اور ہراسانی کا کوئی معاملہ ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں شوہر کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا ۔ بیوی کو معاوضہ اسی وقت مل سکتا ہے جب اس پر گھریلو تشدد کا معاملہ ثابت ہوجائے ۔ اس کےعلاوہ چونکہ بیوی نے اپنا ہندو مذہب تبدیل کرکے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہے اس لئے وہ تمام ازدواجی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے ۔  

ایک نظر اس پر بھی

کرناٹک کی گرہ لکشمی یوجنا: خواتین کے معاشی استحکام کے لیے اہم قدم

   کرناٹک حکومت نے خواتین کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے لیے گرہ لکشمی یوجنا کا آغاز کیا ہے، جو ملک بھر میں چلائی جانے والی مختلف اسکیموں کی ایک اور کڑی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد غریب خواتین کو مالی امداد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی مالی حالت کو بہتر بنا سکیں اور خود ...

سرکاری اسکیموں پر قائم رہیں گے: کرناٹک کے وزیر پر میشور کا اعلان

 کرناٹک کے وزیر داخلہ جی پر میشور نے حالیہ تنازعہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس ایم ایل اے ایچ آر گویپا کی جانب سے گارنٹی اسکیموں کو چھوڑنے کے مشورے پر پارٹی نے اپنی وضاحت پیش کی ہے۔ گویپا کے بیان پر ہنگامہ آرائی کے درمیان، وزیر داخلہ نے کہا کہ ایم ایل اے نے صرف اپنی ذاتی ...

بو مئی نے ضمنی انتخابات کے نتائج کو حکومت کے مینڈیٹ سے الگ قرار دیا

سابق وزیر اعلیٰ اور ایم پی بسواراج بو مئی نے کہا کہ حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج ریاستی حکومت کے حق میں کسی بھی طرح کا مینڈیٹ ثابت نہیں ہوتے۔ منگل کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست میں ترقی کا عمل سست ہو چکا ہے اور یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے ممبران اسمبلی بھی ...

بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے، کرناٹک میں مسلمانوں کے ووٹ پر تنازعہ: کیا وقف بورڈ اور سیاسی بیانات ذمہ دار ہیں؟۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک، جو کبھی اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لیے مشہور تھا، آج سیاسی بیانات، وقف بورڈ کے تنازعات، اور اقلیتوں کے حقوق پر سوالیہ نشانوں کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں کرناٹکا وشوا وکلیگا مٹھ کے سربراہ، کمارا چندر شیکھر ناتھا سوامی جی، کے متنازع بیان نے ریاست میں ...

آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکاانتخابی اجلاس، دوسری میقات کے لیے مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صدراورمولانافضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری منتخب

آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈکے انتخابی اجلاس میں دوسری معیادکے لیے فقیہ العصراورممتازعالم دین حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی کوباتفاق رائے صدراورحضرت مولانافضل الرحیم مجددی کوجنرل سکریٹری منتخب کرلیاگیا۔

بینگلور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دو روزہ اجلاس کا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ہاتھوں افتتاح؛ کہا : مرکزی حکومت کھلے عام اقلیتوں کے حقوق سلب کر رہی ہے  

شہر کے دارالعلوم سبیل الرشاد میں منعقدہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دو روزہ 29 ویں سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ مرکزی حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعے کھلے عام اقلیتوں کے حقوق سلب کر رہی ہے ۔