شادی شدہ ہندو خاتون مذہب تبدیل کرنے پر ازدواجی حقوق سے محروم ہوجائے گی ۔ کرناٹکا ہائی کورٹ کا فیصلہ
بینگلورو 7 / نومبر (ایس او نیوز) کرناٹکا ہائی کورٹ نے ازدواجی حقوق سے متعلق ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شادی شدہ ہندو خاتون اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائی بن جاتی ہے تو پھر وہ اس شوہر سے اپنے ازدواجی حقوق طلب کرنے کی حقدار نہیں رہے گی ۔
بتایا جاتا ہے کہ ایک ہندو سے کرسچین بننے والی خاتون نے اپنے شوہر پر گھریلو جھگڑے اور جسمانی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے میجسٹریٹ کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے شوہر سے معاوضہ د لایا جائے ۔ اس کے جواب میں شوہر نے بیوی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ بیوی اپنی مرضی سے اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے ۔ اس کی غفلت کی وجہ سے ایک بیٹے کی موت واقع ہوئی ہے ۔ بیوی نے ہندو دھرم چھوڑ کر عیسائی مذہب قبول کیا ہے ۔ ایک بیٹی کو بھی عیسائی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ میں فالج زدہ شخص ہوں ۔ اس وجہ سے میں کسی قسم کا معاوضہ دینے کے قابل نہیں ہوں ۔ اس لئے بیوی کی اپیل کو خارج کر دیا جائے ۔
شوہر کے بیان اور فراہم کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر میجسٹریٹ کی عدالت میں بیوی کی عرضی خارج کر دی گئی تھی ۔ جس کے خلاف بیوی نے ایڈیشنل سٹی سول اینڈ شیشنس کورٹ میں اپیل دائر کی ۔ سال 2015 میں سیشنس کورٹ نے شوہر کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو زندگی گزارنے کے لئے 4 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے ۔
سیشنس کورٹ کے اس حکم کے خلاف شوہر نے ہائی کورٹ میں کریمنل ریویو پیٹیشن داخل کی تھی جس پر سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ میجسٹریٹ کورٹ اور سیشنس کورٹ میں بیوی کی جانب سے یہ بات ثابت نہیں کی جا سکی کہ اس کے ساتھ گھریلو تشدد اور ہراسانی کا کوئی معاملہ ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں شوہر کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا ۔ بیوی کو معاوضہ اسی وقت مل سکتا ہے جب اس پر گھریلو تشدد کا معاملہ ثابت ہوجائے ۔ اس کےعلاوہ چونکہ بیوی نے اپنا ہندو مذہب تبدیل کرکے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ہے اس لئے وہ تمام ازدواجی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے ۔