کرناٹک میں نکاح ناموں کا مسئلہ: عدلیہ، حکومت اور برادری کی کشمکش۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور
بنگلورو،23نومبر: کرناٹک ہائی کورٹ نے حالیہ معاملے میں ریاستی وقف بورڈ کو نکاح نامے جاری کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک اہم قانونی اور سماجی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف مسلم برادری کے شرعی و قانونی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔یہ معاملہ عالم پاشاہ نامی ایک سماجی کارکن کی جانب سے دائر مفادِ عامہ کی عرضی (PIL) کے ذریعے سامنے آیا۔ درخواست گزار نے حکومتِ کرناٹک کے 30 ستمبر 2023 کو جاری کردہ حکم کو چیلنج کیا، جس میں ریاستی وقف بورڈ کو مسلم شادیوں کے اندراج اور نکاح نامے جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر حکومت سے وضاحت طلب کی کہ وقف ایکٹ 1995 کے تحت وقف بورڈ کو یہ اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے،عدالت نے وقف بورڈ کے ذریعے نکاح نامے جاری کرنے کے عمل پر عبوری روک لگادی اور معاملے کی سماعت کو 7 جنوری 2025 تک ملتوی کر دیا گیا۔
قانونی اور شرعی پہلو: وقف ایکٹ 1995 کے تحت وقف بورڈ کا بنیادی کام مسلمانوں کی مذہبی وقف کردہ جائیدادوں کا انتظام اور برادری کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ نکاح نامے کا اجرا اس دائرہ کار میں شامل نہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اختیارات دینے کے لیے قانون میں ترمیم ضروری ہے۔اسلامی شریعت کے تحت نکاح ایک مذہبی فریضہ اور معاہدہ ہے۔ قاضی کی تصدیق اس کی شرعی حیثیت کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، قانونی طور پر نکاح نامے کا اندراج ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعے خواتین کے حقوق، وراثت، اور دیگر قانونی معاملات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔اگر دیگر ریاستوں کا جائزہ لیا جائے تو کیرالہ میں نکاح رجسٹریشن مقامی بلدیاتی اداروں کے ذریعے کیا جاتا ہے، مگر قاضی کی جاری کردہ دستاویزات کو بھی قانونی حیثیت حاصل ہے۔ مہاراشٹرا اور دہلی میں نکاح کا لازمی رجسٹریشن خواتین اور بچوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔کرناٹک میں وقف بورڈ کو یہ اختیار دینا ایک منفرد اقدام تھا، جو اب قانونی پیچیدگیوں میں الجھ چکا ہے۔ اگر وقف بورڈ کے اختیارات کو کالعدم قرار دیا گیا تو مسلمانوں کو نکاح ناموں اور رجسٹریشن کے لیے دیگر متبادل ڈھونڈنے پڑیں گے، جو مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
سیاسی اور سماجی پہلو: حکومتی اقدام پر عدالتی اعتراضات سے مسلم برادری میں حکومت کے ارادوں پر شبہ پیدا ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اقلیتوں کے حقوق پہلے ہی حساس موضوع ہیں۔ سرکاری نکاح نامے کے نظام میں تبدیلی سے خواتین کے قانونی حقوق اور سماجی تحفظ متاثر ہو سکتے ہیں۔اس معاملے پر قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حکومت وقف ایکٹ میں ترمیم کر کے اس اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کرے، تو یہ ایک مضبوط نظام بن سکتا ہے۔جبکہ بعض رہنماؤں نے اس فیصلے کو برادری کے خودمختار معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے، کچھ نے حکومت سے وضاحت اور مشاورت کا مطالبہ کیا ہے۔ سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کے پیچھے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں، مگر اس سے مسلمانوں میں اعتماد کے بجائے بداعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ایسے معاملات میں حکومت کی وضاحت ضروری ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی قیادت اور علما کے ساتھ مشاورت کر کے حکومت کو اس تنازعے کو ختم کرنا چاہیے۔ اسی طرح ایسے حساس معاملات میں عدالت کو واضح اصول وضع کرنے چاہئیں تاکہ آئندہ ایسے تنازعات پیدا نہ ہوں بصورتِ دیگر، نکاح کے موجودہ نظام کو مضبوط بنانے کے لیے وقف بورڈ اور قانونی ماہرین کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف مسلم برادری کے قانونی نظام بلکہ اس کے اندرونی شرعی معاملات پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔ آئندہ سماعتوں میں اس تنازع کا حل ممکنہ طور پر ایک اہم قانونی اور سماجی پیش رفت ثابت ہوگا۔ مسلم قیادت اور حکومت کے درمیان بہتر روابط سے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے آئندہ کا لائحہ عمل: کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلم برادری کو اپنے شرعی اور قانونی معاملات کے تحفظ کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس تنازعے نے شرعی مسائل، قانونی رکاوٹوں، اور حکومت کے ارادوں کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔مسلمانوں کو اپنے شرعی قوانین کے مطابق نکاح کے معاملات کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور متفقہ موقف اپنانا ہوگا۔ وقف بورڈ کے اختیارات اور قاضیوں کی حیثیت کو قانونی دائرے میں لا کر تنازعات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔مسلم تنظیموں، علما، اور قانونی ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی جا سکتی ہے جو اس معاملے پر حکومت سے مذاکرات کرے اور مسلم برادری کے لیے بہتر حل تلاش کرے۔اگر عدالت وقف بورڈ کے نکاح نامے کو غیر قانونی قرار دیتی ہے، تو قاضیوں اور دیگر مقامی اداروں کے ذریعے نکاح کے اندراج کا ایک مربوط نظام بنایا جا سکتا ہے، تاکہ برادری کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔مسلمانوں کو نکاح کے اندراج اور قانونی دستاویزات کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی دینے کے لیے بیداری مہمات چلانی ہوں گی۔ یہ مہمات خاص طور پر دیہی علاقوں میں زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں، جہاں لوگوں کو قانونی پیچیدگیوں کا علم کم ہوتا ہے۔مسلم خواتین کے حقوق کے حوالے سے نکاح رجسٹریشن کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی نیا نظام خواتین کے حقوق کو کمزور نہ کرے بلکہ انہیں مزید مضبوط کرے۔یہ وقت کرناٹک کے مسلمانوں کے لیے یکجہتی اور حکمتِ عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے۔ حکومت کے اقدامات اور عدالتی فیصلے کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو، مسلمانوں کو اپنی شرعی، قانونی، اور سماجی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ اور متحدہ کوششیں کرنی ہوں گی۔اگر یہ تنازع خوش اسلوبی سے حل ہو جائے تو یہ نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے ہندوستان میں مسلم نکاح کے نظام کو مزید مضبوط اور شفاف بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں )