ہر بار کی طرح ہندوستان کا کسان مشکلات کا حل بناتا ہے، مگر پی ایم مودی انہیں غنڈہ کہتے ہیں: کانگریس کا الزام
نئی دہلی، 4/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی) کانگریس نے ایک بار پھر وزیر اعظم مودی اور مرکزی حکومت کو متعدد مسائل پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے ایک پریس بریفنگ کے دوران ہندوستانی کسانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر مشکل وقت میں ملک کے لیے آسانیاں فراہم کرتے ہیں، مگر وزیر اعظم مودی ان کسانوں کے لیے دہشت گرد اور غنڈہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ سپریا شرینیت نے کہا، "ہر بار کی طرح ہندوستان کا کسان ایک بار پھر مشکل کا حل بن کر سامنے آیا ہے، زرعی شرح نمو 3.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو توقعات سے زیادہ ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "مودی جی، یہ وہی کسان ہیں جو کورونا کے دوران ملک کی حیات بخش قوت بنے تھے، جنہیں دہلی میں بریکیڈنگ اور واٹر کینن کے ذریعے روکا گیا تھا تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں، وہ کسان جو اپنی پیداوار کی قیمت اور اراضی کے حقوق کے لیے سوالات کر رہے ہیں اور روزانہ صرف 27 روپے کماتے ہیں، اور پھر انہی کسانوں کو وزیر اعظم مودی دہشت گرد اور غنڈہ کہتے ہیں۔"
سپریا شرینیت نے پی ایم مودی پر معیشت کو تباہ کرنے کا سنگین الزام بھی عائد کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’نریندر مودی نے ایک کُچکر (بدترین دائرہ) بنایا ہے، اور وہ ہے کم ترقی-کم ملازمت-کم آمدنی-بڑھتی مہنگائی-کم بچت-ڈیمانڈ میں کمی-صارفیت میں کمی-سرمایہ کاری میں گراوٹ۔ لیکن نریندر مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ صرف اڈانی کو سیف (محفوظ) رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی پالیسیوں کا اثر 140 کروڑ ہندوستانیوں پر پڑ رہا ہے، لیکن وہ معاشی چیلنجز کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
ملک کے موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’ملک کی حالت ڈانواڈول ہو چکی ہے‘، یہ الفاظ نریندر مودی کے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ مودی حکومت معیشت کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ جی ڈی پی کی شرح 2 سال میں سب سے نیچے 5.4 فیصد پر آ چکی ہے، ترقی نہیں ہو رہی، ملازمتیں بن نہیں رہیں، روپیہ لڑھکتا جا رہا ہے، مہنگائی لگاتار بڑھ رہی ہے، صارفیت اور سرمایہ کاری گھٹ رہی ہے، لوگ اپنی بچت سے خرچ کر رہے ہیں، سبزیوں کی قیمت 48 فیصد بڑھ گئی ہے، مینوفیکچرنگ گھٹ کر 2.2 فیصد پر آ گئی ہے۔ گولڈ لون گزشتہ 7 ماہ میں 50 فیصد بڑھ گیا ہے۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریا شرینیت کہتی ہیں کہ ’’ملک کی جی ڈی پی دھڑام سے گری ہے۔ یہ گر کر 21 ماہ کی سب سے ذیلی سطح 5.4 فیصد پر آ چکی ہے۔ جی ڈی پی گرنے کا مطلب ہے سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے، صارفیت کم ہو رہی ہے، ملازمتیں نہیں بن رہیں۔ اس لیے جب جی ڈی پی کی شرح گرتی ہے تو حکومت کو فکر کرنی چاہیے۔ یہ بہت سنگین معاملہ ہے، جسے حکومت ہلکے میں لے رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اکتوبر میں آر بی آئی نے دوسری سہ ماہی کی ممکنہ جی ڈی پی شرح 7 فیصد بتائی تھی، وہیں وزیر مالیات نے جی ڈی پی کا اندازہ 6.5 فیصد لگایا تھا جو گر کر 5.4 فیصد ہو گیا۔‘‘
لگاتار بڑھتی مہنگائی کے تعلق سے کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’’مہنگائی مین مودی نے مہنگائی بڑھا کر عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس 6 فیصد ہے، وہیں سبزیوں کی مہنگائی 42.15 فیصد پر ہے۔ کمرشیل ایل پی جی کی قیمت ہر ماہ بڑھا دی جا رہی ہے۔ بی جے پی حکومت والے مہاراشٹر، یوپی، گجرات میں سی این جی کی قیمتیں لگاتار بڑھ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوپی میں سی این جی کی قیمت پٹرول سےزیادہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’مودی حکومت نے کہا کہ روس سے تیل خرید کر ہم نے 25 بلین ڈالر بچائے ہیں، لیکن عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں دیا گیا۔ جب خام تیل مہنگا ہوتا ہے تو عوام کی جیب سے لوٹ شروع کر دی جاتی ہے، لیکن جب خام تیل سستا ہوتا ہے تو پٹرول-ڈیزل کی قیمت کم کیوں نہیں کی جاتی؟‘‘
سپریا شرینیت نے پریس بریفنگ کے دوران کچھ دیگر اہم موضوعات پر بھی اپنی بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہندوستان میں بچت کرنا ایک اچھی عادت رہی ہے، یہ ہمارا کلچر ہے۔ 20-2019 میں ہماری بچت 11.61 لاکھ کروڑ روپے تھی۔ 25-2024 میں وہی بچت 6.52 لاکھ کروڑ روپے پر آ گئی۔ یعنی بچت 44 فیصد گھٹ گئی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے پاس ملازمت نہیں ہے، ان کی آمدنی کم ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ بچت کے پیسوں کو خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘ گولڈ لون کا تذکرہ کرتے ہوئے کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’’اس مالی سال کے 7 ماہ میں سونا گروی رکھ کر قرض لینے والوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ متوسط طبقہ کی ایک خاتون خانہ اپنے بچوں کی فیس جمع کرنا چاہتی ہے تو اس کے پاس اپنے زیور گروی رکھنے کے علاوہ کوئی دیگر راستہ نہیں بچا ہے۔‘‘