لیلۃ القدر؛ہزار مہینوں سے افضل رات۔۔۔۔ از: عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
اگر دنیا کے کسی سوداگرکو یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں مہینے اورتاریخ کوہمارے قریبی شہر میں ایک میلہ لگنے والا ہے؛جس میں اتنی آمدنی ہو گی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزارگنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیرمعمولی نفع ہوگا،تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دے گا؟اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیریوں ہی ضائع کردے گا۔ ایسے میں عقل مند شخص وہی ہوگا جو اس اسکیم سے بھرپورنفع اٹھائے گا اور مستقبل کے لئے ذخیرہ اندوزی کی فکرکرے گا؛بل کہ بتانے والے نے اگر تاریخ نہ بھی بتائی ہوگی تو کسی نہ کسی طرح وہ تاریخ کا پتہ لگانے کی ہرممکن کوشش کرے گااوراگر تاریخ میں کچھ شبہ رہ جائے تو احتیاطاً کئی دن پہلے اس جگہ پہنچ کرپڑاؤ ڈال دے گا۔ٹھیک یہی حال اخیرعشرے کی طاق راتوں اور شب قدر کاہے؛جس میں اللہ تعالی کی رحمتیں،برکتیں اور مغفرتیں اپنے عروج پرہوتی ہیں، کوشش کرنے والے اپنی عبادت وریاضت اوراخلاص وطاعت کے ذریعہ حتی المقدوردامن مرادکو بھرلیتے ہیں؛جب کہ غافل ولاپرواہ لوگ اس بے پایاں فضل وانعام کے باوجود محروم اور نامراد ہوجاتے ہیں۔شب قدر اللہ رب العزت کی جانب سے عطاکردہ ایک ایسا انعام ہے؛جس میں ہر مسلمان کے لئے دررحمت وا ہوجاتاہے،ہرقسم کاخیرآسمان سے نازل ہوتاہے،سلامتی اور بھلائی لے کر فرشتے زمین پراترتے ہیں اور طلوع فجر تک انوار و برکات کا سلسلہ جاری رہتاہے۔
شب قدر کی وجہ تسمیہ:شب قدر کو‘‘قدر’’کیوں کہاجاتا ہے، اس سلسلہ میں علماء کرام نے متعدد وجوہات بیان فرمائی ہیں؛جن میں سے چند ایک کایہاں ذکر کیاجاتاہے:
۱۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’قدر‘‘ کے معنی‘‘مرتبہ’’کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے؛ اس لئے اسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔
۲۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر اور اہم فیصلوں کا قلم دان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے اس وجہ سے یہ لیلۃ القدر کہلاتی ہے۔
۳۔ لفظ قدر تنگی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔(تفسیر الخازن)
سورۃ القدرکی مختصر تفسیر:شب قدر کی عظمت ومنزلت،اس کی اہمیت وفضیلت بتلانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی شان میں قرآن مجید کی ایک مکمل سورت نازل فرمائی ہے۔چناں چہ سب سے پہلے شب قدر کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:”بے شک ہم نے اسے (قرآن کریم کو) شب قدر میں نازل کیا۔“یعنی قرآن مجیدایسی بلندرتبہ کتاب؛ جو ساری انسانیت کے لئے ہدایت نامہ ہے اسی رات میں نازل ہوئی اور بہ طور خاص اس رات کو نزول کتاب کے لئے منتخب کیاگیا۔
پھرآگے اللہ تعالی نے اس کی عظمت شان کوبیان کرتے ہوئے فرمایا:”اورتمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ شب قدر کیاہے؟“یعنی اس کی شان بہت بڑی اور اس کارتبہ بہت عظیم ہے۔
آگے ارشادہے:”قدر کی رات (فضیلت میں) ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے“ یعنی وہ عمل صالح جوشب قدر میں کیاجاتا ہے اس کا ثواب ایک ہزارگنا بڑھادیاجاتاہے۔
اللہ رب العزت نے یہاں مطلق خیر کا لفظ استعمال فرمایا کہ شب قدر ہزارمہینوں سے بہتر ہے؛مگر کتنی بہترہے؟اس کو مخفی رکھاجس سے حق تعالی کے بے پایاں الطاف واحسان کااندازہ ہوتاہے۔
پھرفرمایا:”فرشتے اور جبریل امین اس رات اللہ کے حکم سے نازل ہوتے ہیں ہر کام کے لئے۔ یہ (رات)سلامتی والی ہے صبح کے طلوع ہونے تک“ یعنی شب قدر ہر آفت اور ہر شر سے سلامتی کاباعث ہے اور اس کا سبب اس کی بھلائی کی کثرت ہے نیز اس رات کی ابتداء غروب آفتاب اور اس کی انتہا طلوع فجر ہے۔
شبِ قدر کی فضیلت روایات کی روشنی میں:حضرت کعب احبارؓفرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے فرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کو منتخب کرکے اُن میں سے جمعہ بنایا،مہینوں کو منتخب کرکے اُن میں سے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میں سے مساجد بنائی۔(شعب الایمان:3363)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے)کھڑا ہوا، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“(بخاری ومسلم)
نوٹ: حدیث مبارک میں گناہوں کی معافی کے لئے دو شرطیں بیان کی گئیں:ایمان اور احتساب۔ایمان کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کرنے والا، مسلمان اور صحیح العقیدہ ہو ورنہ اللہ کے ہاں ایمان کے بغیر کوئی عبادت قابل قبول نہیں۔اور ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ریا وغیرہ کسی بدنیتی سے کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی نیت سے کھڑا ہو۔علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کا یقین کرکے بشاشت قلب سے کھڑا ہو،بوجھ سمجھ کر، بددلی کے ساتھ نہیں۔اوریہ کھلی ہوئی بات ہے کہ جس قدر ثواب کا یقین اور اعتقاد زیادہ ہو گا اتنا ہی عبادت میں مشقت کابرداشت کرنا آسان ہو گا؛ یہی وجہ ہے کہ جو شخص قرب الٰہی میں جس قدر ترقی کرتا ہے عبادت میں اس کا انہماک زیادہ ہوتا جاتاہے۔
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا: تمہارے اُوپر ایک مہینہ آنے والاہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہے گا گویا وہ سارے ہی خیر سے محروم رہے گا اور اس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا؛ مگر وہ شخص جو حقیقی محروم ہے۔(ابن ماجہ)
شبِ قدر کون سی رات ہے؟ احادیث مبارکہ میں اس شب کو رمضان المبارک بالخصوص آخر ی عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے اوراس رات کی تعیین کے سلسلے میں اکابر علما، کے اقوال مختلف ہیں؛ جن کا حاصل وخلاصہ یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں رمضان کی ساری راتوں میں جاگ کر اللہ کی عبادت میں لگے رہنا چاہیے، اگر یہ مشکل ہوتو آخری عشرے میں کمر ہمت کس لینا چاہیے اور اگر اس کی بھی ہمت نہ ہو تو اخیر عشرے کی طاق راتوں میں شب ِ قدر کی جستجو کرنی چاہئے،اگر یہ بھی دشوار ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم ستائیسویں شب کو غنیمت ِباردہ سمجھنا چاہیے۔چناں چہ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒلکھتے ہیں: جمہور علماء ستائیسویں شب کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سا ت کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمین اور سات آسمان بنائے،سات اَعْضَاء پر سجدہ مَشْروع فرمایا، طواف کے سات چکرمُقَرَّر کئے، ہفتے کے سات دن بنائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی چاہیے۔(فتح الباری شرح بخاری)
لیلۃُ القدر میں مغفرت سے محروم رہنے والے افراد:رحمتوں اور برکتوں کے اس باغ وبہارموسم میں کچھ ایسے حرماں نصیب اور خائب و خاسر لوگ بھی ہوتے ہیں؛ جو اپنے گناہوں کی پاداش میں شبِ قدرجیسی عظیم اور بابرکت رات کی فضیلتوں کے حصول سے اور بالخصوص مغفرت ِ خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں؟ حدیث میں اُن کی نشان دہی کی گئی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓسے نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد مَروی ہے:شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے زمین پر اُترتے ہیں اور ساری رات عبادت میں مشغول لوگوں سے سلام و مصافحہ کرکے اُن کی دعاؤں پر آمین کہتے ہوئے رات گزار کر صبح جب واپسی کا وقت ہوتا ہے تو حضرت جبریل سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہ کے مومنوں کے ساتھ اُن کی ضروریات کے پورا کرنے کے بارے میں کیا معاملہ فرمایا؟ حضرت جبریل فرماتے ہیں:”اللہ تعالیٰ نے اِس شبِ قدر میں ایمان والوں پر نظرِ رحمت فرمائی اور چار اَفراد کے علاوہ سب کے ساتھ درگذر اور مغفرت کا معاملہ فرمادیا“۔یہ سُن کر حضرات صحابہ کرام نے سوال کیا کہ وہ کون افراد ہوں گے؟تو آپﷺنے اِرشاد فرمایا:شراب کا عادی، والدین کا نافرمان،رشتہ قطع کرنے والااور کینہ پَروَر۔(شعب الایمان: 3421)
(1)شراب کا عادی
شراب جس کو ”اُمّ الخبائث“یعنی تمام بُرائیوں کی جڑ کہا گیاہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اسے ”رِجْسٌ“ یعنی گندگی قرار دیا ہے،یہی شراب متعددگناہوں کاسرچشمہ اور کئی ایک معاصی کامقدمہ ہے، اِس گندگی اور نجاست کا عادی اِس رات کی مغفرت سے محروم رہتا ہے۔
(2)والدین کا نافرمان
والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر شرک سے منع کرتے ہوئے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تعلیم و تاکید فرمائی ہے، اِس سے اِس حکم کی اہمیت وعظمت کا کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بد بخت اور حِرماں نصیب شخص جس نے والدین کے ساتھ بدسلوکی کی ہو اور اُن کی آہیں اور بددُعائیں لی ہو ایسا شخص اِس عظیم اور مُبارک رات مغفرتِ خداوندی سے محروم رہ جاتا ہے۔
(3)قطع رحمی، یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے والا
اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود کے ساتھ کچھ رشتے وابستہ کر رکھے ہیں؛ جن کے ساتھ انسان کو حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے، جوشخص اُن کے حقوق کو پامال کرکے بدسلوکی کا مُرتکب ہوتا ہے وہ ”قاطعِ رحم“کہلاتا ہے،جس کے لیے قرآن و حدیث کے اندر بڑی سخت وعیدیں اور عذاب بیان کیاگیاہے، اِس لئے اِس گناہ سے بہرصورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ شبِ قدر جیسی عظیم رات میں بخشش سے محرومی ہوجاتی ہے۔
(4)آپس میں بغض و کینہ رکھنے والا
دل میں کسی کی دشمنی کو لے کر اُس کو نقصان پہنچانے کے لئے کوشاں رہنا کینہ کہلاتا ہے؛جس کی قرآن و حدیث میں جگہ جگہ مذمت بیان کی گئی ہے۔حدیث شریف کے مطابق ایسے شخص کی بھی اس مُبارک رات میں مغفرت نہیں ہوتی؛اِس لئے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے دل کو ہر طرح کی گندگی سے پاک رکھے۔
شب قدر کیوں عطا ہوئی؟ شبِ قدر عطا کئے جانے جانے کے بارے میں کئی ایک روایتیں ملتی ہیں، ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علہُ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی سرائیل میں ایک شمسون نامی عابد تھا جس نے ہزار ماہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اس پر صحابہئ کرام کو تعجب ہوا کہ اس کے مقابلے میں ہمارے اعمال کی کیا حیثیت؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ایک رات عطا فرمائی جو اس غازی کی مدتِ عبادت سے بہتر ہے۔
اس سلسلے میں علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا امام مالک کے حوالے سے ایک اور روایت تحریر فرمائی کہ رسول اللہﷺ کو پچھلی امتوں کی عمریں دکھائی گئیں، آپ نےدیکھا کہ ان کے بالمقابل آپ کی امت کی عمریں کم ہیں،اس سے آپ کو اندیشہ ہوا کہ میری امت کے اعمال ان امتوں کے اعمال تک نہ پہونچ سکیں گے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔ جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘‘۔
ان کے علاوہ تفسیر طبری اور تفسیرکبیر میں اس معنی کی اور بھی روایتیں مروی ہیں؛جن سے امت محمدیہ کی اس خصوصیت کا اندازہ ہوتاہے۔
شب قدر کا وظیفہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: اگرمیں شب قدرپاؤں تو اس میں کیا دعا پڑھوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ کی تلقین فرمائی:اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی”اے اللہ! تو معاف کر دینے والا ہے اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے، پس مجھے بھی معاف کردے۔“(ترمذی شریف)
مناسب ہے کہ جتنی دیر جاگنے کا ارادہ ہے، اُس کے تین حصے کرلیے جائیں، ایک حصہ میں نوافل پڑھے،ایک حصہ میں تلاوت کلام اللہ میں مشغول رہے اور ایک حصہ استغفار، درود شریف، دعا ء اور ذکر اللہ میں گزادے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃتَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُیعنی جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اُس کو پڑھا کیجیے، نمازکی پابندی رکھیے! بیشک نمازبے حیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیزہے۔(العنکبوت)اس آیت کریمہ میں اِن ہی تین عبادتوں: نماز، تلاوتِ کلام اللہ اور ذکر اللہ کوایک جگہ جمع فرما دیا گیاہے۔
اللہ تعالی ہمیں شب قدر کی مقبول عبادت نصیب فرمائے۔آمین