چراغ جلتے ہیں مگر اندھیرا بڑھتا ہے، ملک میں امیروں کی خوشحالی اور عوامی بدحالی کا المیہ۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

Source: S.O. News Service | Published on 10th December 2024, 12:01 PM | اسپیشل رپورٹس |

"چاہتے ہو چراغ بھی جلے، آندھی بھی نہ ہو"،

ساحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ ہندوستان کے موجودہ معاشی حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک کی معیشت میں ارب پتیوں کی تعداد اور ان کی دولت تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف عوام کی ایک بڑی تعداد غربت، بے روزگاری، اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کا شکار ہے۔ یہ تضاد ملک کے سماجی توازن کو بگاڑ رہا ہے اور اقتصادی پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر رہا ہے۔

یو بی ایس بلینئر ایمبیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد 185 تک پہنچ چکی ہے، اور ان کی مجموعی دولت ₹75 لاکھ کروڑ (905.6 بلین امریکی ڈالر) ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں ان کی دولت میں 42 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں اب ہندوستان ارب پتیوں کی دولت کے لحاظ سے امریکہ اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ یہ اضافہ زیادہ تر ٹیکنالوجی، دوا سازی، اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ ارب پتیوں کی دولت میں یہ بے تحاشہ اضافہ خوش آئند معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ دولت کی یہ غیر مساوی تقسیم معاشرتی بے چینی اور عوامی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

موجودہ حکومت نے عالمی اور ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں ٹیکس میں چھوٹ، کاروبار کے قوانین میں نرمی، اور ڈیجیٹل کاروبار کو بڑھاوا دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان پالیسیوں نے ارب پتیوں کی دولت میں اضافے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ عالمی وبا کے دوران، ملک کے دوا سازی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بے حد ترقی ہوئی۔ ہندوستان نے ویکسین سازی میں دنیا میں اپنی اہمیت بڑھائی، اور ٹیکنالوجی کمپنیاں عالمی مارکیٹ میں زیادہ مضبوط ہوئیں۔ ان دونوں شعبوں میں سرمایہ کاری نے ارب پتی طبقے کو بے حد فائدہ پہنچایا۔

دولت کی غیر مساوی تقسیم

"زمانے بھر کے دکھوں کا حساب کیا رکھنا

خوشی کے لمحے بھی گنو تو غم زیادہ نکلے"

آکسفیم انڈیا کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کی 10 فیصد امیر ترین آبادی ملک کی 77 فیصد دولت کی مالک ہے، جبکہ 50 فیصد غریب ترین عوام کے پاس صرف 13 فیصد دولت ہے۔ اس کے نتیجے میں سماجی عدم مساوات کا مسئلہ سنگین ہو چکا ہے۔ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے، اور عوامی طبقات پر مہنگائی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع میں کمی نے عوام کے معیار زندگی کو متاثر کیا ہے۔

عالمی سطح پر ارب پتیوں کی دولت میں 121 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ ہندوستان میں یہ اضافہ 263 فیصد رہا۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دولت کی تقسیم کس قدر غیر مساوی ہو چکی ہے۔ ارب پتیوں کی بڑھتی ہوئی دولت کے برعکس غریب اور متوسط طبقہ مسلسل دباؤ میں ہے، مہنگائی اور اجرتوں میں کمی نے ان کے مسائل میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

"غم کے سمندر میں خوشیوں کی کشتی گم"

 کی مانند، دولت کی غیر مساوی تقسیم سماجی بے چینی اور عوامی غصے کو بڑھا رہی ہے، جو ممکنہ طور پر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسے میں حکومت کو تعلیم، صحت، اور روزگار کے شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ عوامی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مضبوط کرنا نہایت اہم ہے تاکہ دیہی معیشت کو فروغ ملے اور کسانوں کے حالات بہتر ہوں۔

پالیسیوں میں توازن کی کمی: حکومت کی جانب سے ارب پتی کمپنیوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ اور کاروباری قوانین میں نرمی، عوامی بہبود کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں ثابت ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ارب پتی طبقہ مزید طاقتور ہو گیا ہے، لیکن عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ حکومت کی پالیسیوں میں توازن کی کمی ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر فائدہ بڑی کمپنیوں اور ارب پتیوں کو ہو رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے صحت، تعلیم، اور روزگار جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کی کمی، عوامی مسائل میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں میں توازن کی کمی ہے۔

اگرچہ غیر ملکی سرمایہ کاری نے ہندوستان کی معیشت میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کا زیادہ تر فائدہ ارب پتی طبقے اور بڑی کمپنیوں کو ہوا ہے۔ اگر اس سرمایہ کاری کو مقامی معیشت اور چھوٹے کاروباروں کے فروغ میں استعمال کیا جائے تو عوام کے معیار زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ حکومتی پالیسیاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو مقامی روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنے کی طرف زیادہ توجہ دے سکتی ہیں۔

چراغ جلتے ہیں مگر اندھیرا بڑھتا ہے: یہ مصرعہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، جہاں ایک طرف ارب پتی طبقہ ترقی کر رہا ہے اور دوسری طرف عوامی بدحالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اور کارپوریٹ سیکٹر کو مل کر ایسی پالیسیوں کی تشکیل کرنی چاہیے جو تمام طبقات تک خوشحالی پہنچا سکیں، تاکہ ملک کی ترقی کا فائدہ تمام شہریوں تک پہنچ سکے۔

صرف متوازن اقتصادی نظام کے ذریعے ہی ملک سماجی اور اقتصادی ترقی کے حقیقی مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ ارب پتی کمپنیوں کو اپنے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت عوامی فلاحی منصوبوں میں حصہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی دولت کا کچھ حصہ عوامی بہتری میں استعمال ہو سکے۔ ہندوستان کی معیشت میں حقیقی ترقی اس وقت ممکن ہے جب سب کے لیے یکساں مواقع ہوں اور دولت کا توازن بہتر انداز میں تقسیم ہو۔

(مضمون نگار معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں، اس کالم پر شائع مضامین کا ادارے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)

ایک نظر اس پر بھی

وہ مسجدیں اور عمارتیں جو نشانے پر ہیں ۔۔۔۔۔از: سہیل انجم

جب 1991 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے عبادت گاہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا تو یہ توقع کی گئی تھی کہ اب کسی بھی تاریخی مسجد، مقبرے، درگاہ اور قبرستان پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی دفعہ چار کی شق ایک میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی، اسی ...

یہ کون بچھا رہا ہے نفرت کا جال، کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے؟۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک، جو کبھی ہندوستان کی ثقافتی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی مثال سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی تاریخی وراثت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ اس کے معاشرتی و سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ یہ سوال کہ ...

پلیس آف ورشپ ایکٹ لاگو ہونے کے باوجود مسجدوں کے سروے کیوں ؟ کیا سروے کرانے کی لسٹ میں شامل ہیں 900 مساجد ؟

بھلے ہی 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک میں لاگو ہو،  جو یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن  80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران جو  نعرہ گونجا تھا: "ایودھیا صرف جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے" ،  اس نعرے  کی بازگشت حالیہ ...

آئینہ دکھا تو رہے ہیں، مگر دھندلا سا ہے،ای وی ایم: جمہوریت کی حقیقت یا ایک بڑا تنازع؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ...

کرناٹک ضمنی انتخابات: مسلم ووٹ کا پیغام، کانگریس کے لیے عمل کا وقت۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت نے کانگریس کو زبردست سیاسی برتری دی۔ مسلم کمیونٹی، جو ریاست کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں، نے ان انتخابات میں اپنی یکجہتی ظاہر کی، اور اب یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد کا بھرپور احترام ...