کیرالہ ہائی کورٹ نے طالب علم کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں ٹیچر پر عائد الزامات مسترد کر دیے
کوچی، 7/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی) عدالت نے کہا کہ ’’جب مہاربھارت میں ایکلویہ سے کہا گیا تھا کہ وہ احتراماً اپنے استاد کو اپنا انگوٹھا، جس کےذریعے وہ تیز اندازی کرتا ہے، دینے کیلئے کہا گیا تو اس نے بغیر ہچکچاہٹ کے ایسا کیا تھا۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کر رہی ہے اور ٹیکنالوجی ایڈوانسڈ ہورہی ہے استاد اور طالب علم کے درمیان کا رشتہ اتنا ہی خراب ہوتا جا رہا ہے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اب ٹیچر اس خوف میں رہنے لگے ہیں کہ اگرانہوں نے طالب علم کو کچھ کہا تو انہیں مجرمانہ کیس کا سامنا نہ کرنا پڑے یا انہیں سلاخوں کے پیچھے بند نہ کر دیا جائے۔‘‘حالیہ کیس میں جماعت میں طالب علم نے اپنے پیر ڈیسک پر رکھے ہوئے تھے۔ ٹیچر نے طالب علم سے ڈیسک پر سے اپنا پیر ہٹانے کیلئے کہا تو اس نے زبانی طورپر ٹیچر کو برا بھلا کہا جس کے جواب میں ٹیچر نے اسے لکڑی سے مارا۔ طالب علم نے کہا کہ ’’ٹیچر نے اسے کان سے پکڑا تھا اور اسے لکڑی سے مارا تھا۔‘‘تاہم، عدالت نے نشاندہی کی ہے کہ ٹیچر کو سیکشن ۷۵؍ کے تھت غیر ضروری طور پر تکلیف پہنچانے کیلئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور طالب علم کو کوئی سنگین چوٹ نہیں پہنچی ہے۔‘‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’اس معاملے میں ٹیچر کو طالب علم کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر غیر ضروری طور پر چوٹ پہنچانے کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ طالب علم کے ٹیچر کو زبانی طورپر برا بھلا کہنے کے بعد ٹیچر نے سے مارا تھا۔ اسی لئے جوینائل جسٹس ایکٹ کے سیکشن ۷۵؍ کے تحت اس کیس میں کوئی مجرم نہیں ہے۔‘‘ عدالت نے مزید کہا کہ ’’متعدد طلبہ کو اپنے اساتذہ کی عزت نہ کرنے کی عادت ہوتی ہے سے بدتمیزی کرنے کی عادت ہوتی ہے اور اساتذہ اپنی ڈیوٹی کے تحت طلبہ کو سدھارنے کیلئے جو ہدایت دیتے ہیں یا محکمہ جاتی کارروائی کرتے ہیں یہاں انہیں حراست میں رکھنے کیلئے سنگین غیر ضمانتی جرائم کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ ‘‘جج نے اسی حالت کے جاری رہنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’’ان حالات کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو نظم و ضبط کی حامل نوجوان نسل کو پروان چڑھانا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔‘‘عدالت نے ٹیچر کے خلاف تمام مجرمانہ الزامات ختم کر دیئے ہیں۔ قبل ازیں ٹیچر کے خلاف آئی پی سی کے سیکشن ۳۲۴؍ اور جوینائل جسٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’’جب طالب علم نے زبانی طور پر ٹیچر کو برا بھلا کہا توٹیچر نے اسے مارا اور طالب علم کو کوئی زخم اور تکلیف نہیں پہنچی ہے۔‘‘ اس کیس میں وکیل رجیت ٹیچر کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ عوامی پراسیکیوٹر پی پرشانت ریاست کی نمائندگی کر رہے تھے۔