"ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے"، کرناٹک میں وقف املاک کا مسئلہ اور حکومتی بے حسی۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور
بینگلورو 14 نومبر: کرناٹک میں وقف املاک کے تنازعے میں حالیہ حکومتی سرکلر نے مسلم برادری میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے حالیہ دنوں میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے، جس میں وقف املاک سے متعلق جاری کیے گئے تمام احکامات کو فوری طور پر معطل کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس سرکلر کا مقصد کسانوں اور عوامی شکایات کو دور کرنا تھا، لیکن مسلم برادری اسے وقف املاک اور ان کے حقوق کے حوالے سے بے حسی اور غفلت کی علامت سمجھ رہی ہے۔ اوقافی املاک پر غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے جاری کیے گئے احکامات اور ان کی واپسی نے مسلم برادری میں گہری بے چینی پیدا کی ہے۔ وجے پور اور دیگر اضلاع میں کسانوں کی زمینوں کو وقف املاک قرار دے کر نوٹس جاری کیے گئے تھے، جس پر عوام اور اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ وزیر اعلیٰ سدارامیا نے عوامی دباؤ کے پیشِ نظر ان احکامات کو واپس لے لیا، لیکن اس اقدام نے مسلمانوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ حکومت مسلم مفادات کے تحفظ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس فیصلے نے ریاست بھر میں وقف املاک کے خلاف غیر قانونی قبضوں کو روکنے کی تمام کوششوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری نوٹسز کی واپسی کا اثر مسلم برادری کے اعتماد پر منفی انداز میں پڑا ہے۔ ایک وزیر کی نادانی کی بدولت شروع ہونے والے تنازع کا منفی اثر پوری قوم پر پڑ رہا ہے، اس کے بعد وجے پور کے وقف املاک کے تحفظ کے بجائے دیگر اوقافی املاک کی ملکیت بھی خطرے میں ہے، ایک طرف جہاں قومی سطح پر وقف ترمیمی بل پر بحث چل رہی ہے، وہیں ان اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ کرناٹک حکومت نے تجرباتی طور پر اسے نافذ کر دیا ہے۔ اس سے وقف املاک پر قبضے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔وقف املاک کے اس اہم مسئلے پر ریاستی وزیر ضمیر احمد خان کا کردار بھی تنقید کی زد میں ہے۔ ماضی میں ایچ ڈی کمار سوامی کے نماز عید کے موقع پر عیدگاہ نہ پہنچنے پر فوری کابینہ سے استعفیٰ دینے والے ضمیر احمد خان اس وقت خاموش ہیں۔ اس وقت جبکہ وقف املاک کے حقوق کا مسئلہ عروج پر ہے، ان کی اس معاملے پر خاموشی نے برادری کو مایوس کیا ہے۔ ان کے متنازعہ بیانات اور بظاہر غیر سنجیدہ رویے نے مسلمانوں کے احساسات کو مجروح کیا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان کے حقوق کی پاسداری نہیں کی جا رہی اور ان کے نمائندے بھی ان کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔
وقف املاک کا تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر اثرات: حکومت کی طرف سے وقف املاک سے متعلق جاری کردہ سرکلر نے نہ صرف مسلم برادری میں بے چینی پیدا کی ہے بلکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں مرکز کی ہدایت پر ریاستی پولیس نے مدارس کے بارے میں تفصیلات طلب کیں اور ان کی فنڈنگ کے ذرائع کی چھان بین کا حکم دیا گیا، جس پر مسلم برادری نے شدید مخالفت کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ سرکلر واپس لے لیا گیا، لیکن اس واقعے نے مسلمانوں میں حکومت کے ارادوں کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں۔ وجے پور واقعے اور دور اندیشی و حکمت سے خالی بیانات کے بعد کسانوں اور مسلم برادری کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ کسانوں کے احتجاج اور ان کی حمایت میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ان کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وقف املاک کے مسائل کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ ان حالات میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچا ہے، جس سے مسلم کمیونٹی میں عدم تحفظ اور بے چینی کا احساس بڑھا ہے۔ وقف املاک کے مسائل پر ہاویری کے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے بعد مسلمانوں کو اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس واقعے نے نماز اور مذہبی اجتماعات میں بھی کمی کو جنم دیا، جس سے مسلم برادری میں عدم تحفظ کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ اس واقعے نے حکومت کے مؤقف اور اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں کہ آیا وہ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہے یا نہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا کردار: ان حالات میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا بنگلور میں ہونے والا اجلاس مسلم کمیونٹی کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے۔ بورڈ کو کرناٹک حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے مسلمانوں کے خدشات دور کرنے اور وقف املاک کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس سے امید کی جا رہی ہے کہ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا اور مسلم حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مثبت اقدامات کیے جائیں گے۔کرناٹک میں وقف املاک کے مسائل نے مسلم برادری میں بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا کو جنم دیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری اور ان کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ وزیر برائے وقف، ضمیر احمد خان اور دیگر مسلم نمائندوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم رکھا جا سکے اور مسلم کمیونٹی کا اعتماد بحال ہو۔
(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)