کرناٹک کی ذات پات مردم شماری: کیا مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سماجی و سیاسی مخالفت کی وجہ بن رہی ہے؟۔۔۔۔۔۔ از:عبدالحلیم منصور
حکومت کرناٹک نے حال ہی میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لانے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ اس رپورٹ کے نتائج ریاست کے سماجی، اقتصادی، اور تعلیمی ڈھانچے کا جامع جائزہ پیش کریں گے، جس کی بنیاد پر اہم حکومتی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ تقریباً 48 جلدوں پر مشتمل مردم شماری کی رپورٹ کرناٹک میں پسماندہ طبقات کی ترقی کے حوالے سے کئی اہم معاملات کو جنم دے رہی ہے، جن میں ریزرویشن، سماجی انصاف، اور اقتصادی اصلاحات شامل ہیں۔
مردم شماری کا پس منظر: 2015 میں اس مردم شماری کا آغاز اُس وقت ہوا جب کرناٹک کی اُس وقت کی سدارامیا حکومت نے فیصلہ کیا کہ ریاست میں ذات پات کی بنیاد پر موجود سماجی اور اقتصادی فرق کو بہتر طور پر سمجھنا ضروری ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ حکومت مختلف برادریوں کی تعلیمی و اقتصادی صورتحال کا جائزہ لے سکے اور پالیسی سازی میں ان کی ضروریات کو مدنظر رکھ سکے-
اس مردم شماری میں کرناٹک کی آبادی کے مختلف حصوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، جن میں اعلیٰ ذاتیں، درج فہرست ذاتیں (SCs)، درج فہرست قبائل (STs) اور پسماندہ طبقات (OBCs) شامل ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق، OBCs ریاست کی تقریباً 75% آبادی پر مشتمل ہیں، جبکہ اعلیٰ ذاتوں کی تعداد تقریباً 13% ہے۔ درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل بالترتیب 17% اور 7% آبادی کا حصہ ہیں۔
سیاسی تناظر : کرناٹک کی ذات پات پر مبنی سیاست ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، اور یہ مردم شماری اس سیاسی پس منظر کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ ریاست میں مختلف طبقات، خاص طور پر پسماندہ برادریاں، اس مردم شماری کے نتائج سے براہ راست متاثر ہو سکتی ہیں۔ حکومت کے مطابق، اس مردم شماری کے نتائج کو سماجی انصاف کے فروغ اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن یہ معاملہ صرف سماجی اصلاحات تک محدود نہیں، بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہوں گے۔
وزیر اعلیٰ سدارامیا کی قیادت میں کانگریس حکومت اس رپورٹ کو 18 اکتوبر 2024 کو کابینہ میں پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جہاں فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے یا براہ راست عوام کے سامنے لایا جائے۔ سدا رامیا کے مطابق، یہ رپورٹ حکومت کو پسماندہ طبقات کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی تیار کرنے میں مدد دے گی۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اس مردم شماری کے اجراء پر سوال اٹھا رہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت یہ رپورٹ ایسے وقت میں پیش کر رہی ہے جب دیگر مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ سیاسی حلقے حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ یہ رپورٹ عوام کی توجہ معیشت اور دیگر اہم مسائل سے ہٹانے کا ایک حربہ ہو سکتی ہے-
تاہم، حکومتی مؤقف اس سے مختلف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ مردم شماری ریاست کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی اور اس کے ذریعے حکومت پسماندہ طبقات کو بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کر سکے گی۔
اس مردم شماری کے نتائج ریاست کے سماجی و اقتصادی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ خاص طور پر تعلیم، روزگار، اور ریزرویشن کے معاملات میں یہ نتائج اہم کردار ادا کریں گے۔ پسماندہ طبقات کی تعلیم اور روزگار کے مواقع دیگر طبقات کے مقابلے میں کم پائے گئے ہیں، اور یہ مردم شماری ان فرقوں کو اجاگر کرے گی۔
اقتصادی طور پر، OBCs کی ایک بڑی تعداد زراعت پر منحصر ہے، اور شہری علاقوں میں روزگار کے مواقع کی کمی کا سامنا کرتی ہے۔ حکومت اس مردم شماری کی مدد سے ان برادریوں کے لیے روزگار اور تعلیمی مواقع پیدا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔
حکومت کے اندرونی اختلافات: اگرچہ حکومت بظاہر مردم شماری کے نتائج کے اجراء کے لیے تیار ہے، لیکن اندرونی طور پر کچھ سیاسی رہنما اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ کچھ لینگایت اور وکلیلگا تنظیمیں مردم شماری کے نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ ایک نئی مردم شماری کی جائے۔ یہ اختلافات حکومت کے لیے ایک چیلنج بن سکتے ہیں، کیونکہ ان برادریوں کی مخالفت حکومت کی پوزیشن کو کمزور کر سکتی ہے۔
کرناٹک کی ذات پات پر مبنی مردم شماری ایک اہم اور حساس معاملہ بن چکا ہے۔ اس کے نتائج سماجی انصاف، ریزرویشن، اور ریاست کی اقتصادی پالیسیوں پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کی ترقی کے لیے عملی اقدامات کرے، لیکن ساتھ ہی سیاسی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ حزب اختلاف کی تنقید اور حکومت کے اندرونی اختلافات اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔مردم شُماری رپورٹ کے خلاف حکومت کے اندر سے کچھ اختلافی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ڈی کے سریش نے کہا کہ "وزیراعلیٰ کو ذات پات کی مردم شماری کے معاملے میں احتیاط سے قدم اٹھانا چاہیے"۔ اسی دوران، شیامانور شیوشنکرپّا نے کہا کہ "ہم پرانی ذات پات کی مردم شماری کو قبول نہیں کریں گے۔ ہم ہمیشہ سے حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ نئی مردم شماری کرے۔ ویرشیوا لنگایت کی ذیلی برادریوں کو الگ الگ شمار کرکے ویرشیوا لنگایت کی مجموعی تعداد کم دکھائی گئی ہے"۔ وکلیگا تنظیم نے پہلے ہی ذات پات کی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔ لنگایت تنظیمیں بھی اندرونی طور پر ذات پات کی مردم شماری کے خلاف تیاری کر رہی ہیں۔ خود پارٹی صدر و نائب وزیر اعلی ڈی کے شیو کمار بھی اس معاملے پر مبھم موقف رکھتے ہیں،
ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے کانگریس حکومت کے اندر سے ہی ذات پات کی مردم شُماری کے خلاف اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ آج سدارامیا کو اس معاملے میں بی جے پی کا کوئی خوف نہیں ہے جب بلکہ، انہیں اپنی حکومت کے اندر موجود لیڈروں کے بارے میں تشویش ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر لنگایت اور وکلیلگا رہنما ذات پات کی مردم شُماری کی وجہ سے بغاوت کریں گے تو اس سے حکومت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی دوران کانگریس کے سینئر رہنما بی کے ہری پرساد نے ایک عوامی تقریب میں کہا کہ "اگر حکومت گرتی ہے تو گر جائے، ذات پات کی مردم شُماری کی رپورٹ نافذ کی جانی چاہیے"۔
اگر ذات پات کی مردم شماری کی رپورٹ نافذ ہوئی تو حکومت کیسے گرے گی؟ حکومت کو گرانے والے کون ہیں؟ انہوں نے ان سوالات کے جواب نہیں دیے۔ لیکن ان کے بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اگر ذات پات کی مردم شماری کی رپورٹ نافذ کی گئی تو پارٹی کے اندر موجود لوگ ہی حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔
اب کانگریس رہنماؤں کو کچھ سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ اسمبلی انتخابات میں انہوں نے ذات پات کی مردم شماری کو نافذ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ووٹ مانگے تھے۔ اب اگر ذات پات کی مردم شماری کے نفاذ سے پیچھے ہٹ گئے تو کیا یہ عوام کے ساتھ دھوکہ نہیں ہوگا؟ وزیر اعلیٰ سدارامیا خود کو مظلوم طبقے کا نمائندہ کہتے ہیں۔ ذات پات کی مردم شماری مظلوم طبقے کے مفادات میں ہے۔ کیا وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے ان مفادات کو قربان کر دیں گے؟ سب سے بڑھ کر کانگریس کے قومی رہنما ملک بھر میں ذات پات کی مردم شماری کے نفاذ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی ذات پات کی مردم شماری کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں، ریاست کے کچھ کانگریس رہنماؤں کا ذات پات کی مردم شماری کے خلاف بات کرنا کیا مرکزی قیادت کے خلاف نہیں ہے؟ کیا کے پی سی سی کے رہنما ان کے خلاف کارروائی کریں گے؟ کانگریس کے ایک لنگایت رہنما نے کہا کہ "ہم پرانی ذات پات کی مردم شماری کو قبول نہیں کریں گے"۔ کیا کانگریس پارٹی ان کے لیے نئی مردم شماری کرے گی؟ کیا حکومت نئے مردم شماری کے اخراجات برداشت کرے گی یا لنگایت رہنما خود اس کا خرچ اٹھائیں گے؟ اگر کسی اور ذات کے رہنماؤں کو نئی مردم شماری پسند نہیں آئی تو کیا حکومت ان کے لیے ایک اور مردم شماری کرنے کو تیار ہے؟
کانگریس میں ذات پات کی مردم شماری کے حوالے سے موجود اختلافات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کانگریس کے رہنماؤں کو ذات پات کی مردم شماری کی ضرورت اور ناگزیریت کا بنیادی علم بھی نہیں ہے۔ کانگریس کی قیادت کو ایسے رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔
آنے والے دنوں میں، اس مردم شماری کی رپورٹ کے اجراء سے نہ صرف ریاست کی سیاست متاثر ہوگی، بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی اس کے نتائج کا اثر محسوس کیا جائے گا۔ اس لیے اس رپورٹ کو حکمت عملی کے ساتھ جاری کرنا حکومت کے لیے ایک اہم اور فیصلہ کن قدم ہوگا۔
ابھی یہ بحث تھمی بھی نہیں ہے کہ موڈا اسکینڈل سے حکومت متاثر ہو رہی ہے ۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا موڈا اسکینڈل کے نام پر سدارامیا کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جائے گا ؟
ذات پات کی مردم شماری کی رپورٹ بحث کاموضوع بن چکی ہے۔ پچھلے انتخابات میں کانگریس حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ذات پات کی مردم شماری کو نافذ کرے گی۔ یہی نہیں، پچھلے لوک سبھا انتخابات کے دوران راہول گاندھی نے بھی ملک گیر سطح پر ذات پات کی مردم شماری کرانے کا اعلان کیا تھا۔ ریاست میں بھاری اکثریت کے ساتھ کانگریس نے اقتدار سنبھالا۔ شروع میں سدارامیا کی قیادت والی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج گارنٹیوں کا نفاذ تھا۔ اپوزیشن جماعتیں، اس یقین کے ساتھ کہ کانگریس حکومت کے لیے گارنٹیوں کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا، سڑکوں پر اتر آئی تھیں اور "فوری طور پر گارنٹیوں کو نافذ کرو" کے نعرے بلند کیے تھے۔ تاہم، سدارامیا کی قیادت میں حکومت نے حیرت انگیز طور پر ان گارنٹیوں کو نافذ کر دیا۔ اپوزیشن کی توقعات کے برعکس، کہ اقتصادی دباؤ کی وجہ سے حکومت آگے نہیں بڑھ پائے گی، سدارامیا نے کامیابی سے آگے قدم بڑھائے۔
اعلیٰ ذاتوں کو اہمیت میں گراوٹ کا خوف؛ کیا آبادی میں مسلمان دوسرے نمبر پر ہیں ؟ ریاست کی اعلیٰ ذاتوں کو اس مردمشماری رپورٹ سے اپنی سیاسی اہمیت میں کمی آنے کا خوف ستا رہا ہے ،موڈا گھپلہ میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے اپنی کرسی بچانے کی خاطر جہاں ذات پات پر مبنی مردم شُماری رپورٹ کی حکمت عملی تیار کی ہے تو وہیں اب انہیں اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے، یہاں یہ بات نوٹ کرلینی چاہئے کہ اس رپورٹ کی مخالفت اس لئے بھی کی جارہی ہے کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ سروے رپورٹ کے مطابق ریاست میں سب سے بڑی آبادی پسماندہ طبقات و قبائل کی ہے، جس کے بعد دوسرا نمبر مسلمانوں کا آتا ہے اور یہ بات اعلیٰ ذاتوں کے نہ صرف لیڈروں بلکہ مذہبی رہنماؤں کو بھی ہضم نہیں ہورہی ہے ۔
اپنے آپ کو مضبوط طبقات قرار دینے والے لنگایت اور وکلیلگا فرقوں کا کہنا ہے کہ ان کو ذیلی ذاتوں میں شمار کرکے آبادی گھٹا کر دکھائی گئ ہے، باوثوق ذرائع کے مطابق ذات پات پر مبنی مردم شُماری رپورٹ کے مطابق درج فہرست ذاتوں کی آبادی 18 فیصد، درج فہرست قبائل کی 6.7 فیصد، مسلمانوں کی آبادی 11.7 فیصد، لنگایت کی 10.08فیصد، وکلیلگا کی 10.03فیصد ، کروبا کی 7.5فیصد، ایڈیگا کی2.5 فیصد، وشواکرما کی 2.5فیصد، اور برہمن کی 2.3 فیصدہے ۔ ان اعداد و شمار نے تمام طبقوں کی سیاسی قیادت کی نیندیں حرام کردی ہیں۔اگر رپورٹ جاری ہو گئی تو ان کی سیاسی قیادت کو نہ صرف نقصان ہوگا بلکہ پسماندہ طبقات اور مسلمان آبادی کے حساب سے حصہ داری مانگیں گے، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کی مردم شُماری رپورٹ بھی ایک سیاسی حربہ ہے ،کیونکہ خود سدارامیا کو بھی معلوم ہے کہ یہ لوہے کے چنے ہیں، وہ خود اس کا استعمال سیاسی فائدہ کیلئے کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں تاکہ وہ پسماندہ طبقات و اقلیتوں کے نا قابلِ تسخیر رہنما قرار دیے جائیں اور اہندا طبقات کے ہمدرد کا لقب ان کے نام مستقل طور پر درج ہوجائے ۔اگر سدارامیا حقیقی طور پر اس معاملے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں چاہئے کہ پوری دیانتداری سے اس رپورٹ کو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام تر قانونی پیچیدگیوں کو دور کرکے نہ صرف پسماندہ طبقات بلکہ دوسری بڑی آبادی کا درجہ رکھنے والے مسلمانوں کی سماجی ،تعلیمی، معاشی اور سیاسی ترقی کیلئے راہیں ہموار کریں۔
(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی و تجزیہ نگار ہیں)