بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے، کرناٹک میں مسلمانوں کے ووٹ پر تنازعہ: کیا وقف بورڈ اور سیاسی بیانات ذمہ دار ہیں؟۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور
بنگلورو، 27/نومبر : کرناٹک، جو کبھی اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کے لیے مشہور تھا، آج سیاسی بیانات، وقف بورڈ کے تنازعات، اور اقلیتوں کے حقوق پر سوالیہ نشانوں کی زد میں ہے۔ حالیہ دنوں میں کرناٹکا وشوا وکلیگا مٹھ کے سربراہ، کمارا چندر شیکھر ناتھا سوامی جی، کے متنازع بیان نے ریاست میں ہلچل مچا دی۔ ان کا یہ کہنا کہ "مسلمانوں کے ووٹ دینے کے حق کو ختم کر دینا چاہیے، اور وقف بورڈ کو تحلیل کر دینا چاہیے" نہ صرف آئینی اصولوں کے منافی ہے بلکہ اقلیتوں میں بے چینی اور عدم تحفظ کو بھی ہوا دیتا ہے۔بنگلور میں وقف کے خلاف منعقدہ بی جے پی کی ہمنوا کسان یونٹ بھارتیہ کسان سنگھ کے ایک احتجاجی پروگرام میں سوامی جی نے کہا کہ "پاکستان کے نظام کو اپنانا" اور اقلیتوں کے ووٹ دینے کے حقوق ختم کرنا ہندوستان میں امن قائم کرنے کا واحد حل ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے وقف بورڈ کو ملک میں فرقہ وارانہ تنازعات کی جڑ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کی تجویز دی۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب وقف بورڈ زمینوں سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے نوٹس جاری کر رہا تھا، جس پر کسانوں نے شدید اعتراض کیا اور فریڈم پارک میں احتجاج کیا۔ماہرین کے مطابق سوامی جی کا بیان نہ صرف تاریخی حقائق بلکہ آئینی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ ان کے دعوے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے، مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔
وقف بورڈ تنازعہ: مسئلہ کی جڑ: صوبہ کرناٹک میں حالیہ مہینوں میں وقف بورڈ نے تجاوزات کے خاتمے کے لیے کئی نوٹس جاری کیے تھے، لیکن ان نوٹسز کو واپس لینا پڑا کیونکہ کسانوں کی اکثریت نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس تنازعے نے مسلمانوں اور کسانوں کے درمیان پہلے ہی دراڑ ڈال دی تھی، جسے سیاسی قیادت بروقت سنبھالنے میں ناکام رہی۔کانگریس حکومت کے ایک مسلم وزیر ضمیراحمد خان، کے سابق وزیر اعظم دیوے گوڈا اور ان کے خاندان کے خلاف نازیبا بیانات نے اس کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔ ان بیانات نے جے ڈی ایس کے وکلیگا طبقے میں ناراضگی پیدا کی اور سوامی جی کے سخت ردعمل کی راہ ہموار کی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وقف تنازعہ اور وزیر اوقاف کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے اس ماحول کو مزید خراب کر دیا۔وقف بورڈ کی زمینوں کے تنازعے اور اس کے انتظامی فیصلے وقف وزیر کی سیاسی ناتجربہ کاری کو ظاہر کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، نوٹسز جاری کرنے اور انہیں واپس لینے جیسے غیر سنجیدہ اقدامات نے اقلیتی طبقے کو الجھن میں ڈال دیا۔ وزیر کے غیر مؤثر فیصلوں اور تنازعات کے حل میں ناکامی نے نہ صرف وقف بورڈ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ کسانوں اور مسلمانوں کے درمیان دوریوں کو مزید بڑھا دیا۔
آئینی اور سماجی اثرات: سوامی جی کے بیان کو آئین کے آرٹیکل 326، جو تمام بالغ شہریوں کو ووٹ کا حق فراہم کرتا ہے، اور آرٹیکل 14، جو مساوات کی ضمانت دیتا ہے، کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 25 کے تحت مذہبی آزادی فراہم کی گئی ہے، جو ایسے بیانات سے متاثر ہو سکتی ہے۔ایسے بیانات نہ صرف ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھا سکتے ہیں بلکہ اقلیتوں میں عدم تحفظ کے جذبات کو بھی گہرا کر سکتے ہیں۔ سماجی ہم آہنگی، جس کے لیے کرناٹک جانا جاتا تھا، ان تنازعات کی وجہ سے خطرے میں ہے۔کانگریس نے سوامی جی کے بیان کو آئین پر حملہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کی خاموشی کو کئی حلقے ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ وکلیگا طبقے کے رہنما بھی سوامی جی کے بیان پر اپنی ناراضگی ظاہر کر چکے ہیں، جبکہ سماجی تنظیموں نے فرقہ وارانہ ماحول کو پرسکون رکھنے کے لیے حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے تنازعات کو حل کرنے کے لیے حکومت اور سماجی رہنماؤں کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نفرت انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کے علاوہ، مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے درمیان مکالمہ قائم کر کے غلط فہمیوں کو دور کیا جانا چاہیے۔میڈیا کو غیر جانبدار اور ذمہ دار کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ ریاست کی سیاست میں مسلمانوں کے ووٹ ہمیشہ اہم رہے ہیں، لیکن حالیہ تنازعات نے اقلیتوں کے سامنے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔کرناٹک کی شناخت، یعنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ، کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت، سماجی رہنما، اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اقلیتوں کے حقوق پر سوال اٹھانا نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ سماجی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔
سوامی جی کا وضاحتی بیان: زبانی لغزش قرار
وشوا وکلیگامہا سمستھانا مٹھ کے سربراہ شری کمارا چندر شیکھر ناتھا سوامی جی نے حالیہ متنازعہ بیان کے حوالے سے ایک تفصیلی وضاحت جاری کی ہے۔ اپنے پریس نوٹ میں انہوں نے واضح کیا کہ ان کا بیان محض ایک " زبانی لغزش" کا نتیجہ تھا، اور ان کا مقصد کسی بھی مذہبی یا سماجی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ سوامی جی نے اس بات پر زور دیا کہ مٹھ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تمام مذاہب اور سماجی طبقات کے درمیان یکجہتی، بھائی چارے اور احترام کو فروغ دیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے بیان سے کسی بھی طبقے یا فرد کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو وہ اس کے لیے دلی معذرت خواہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مٹھ کا بنیادی اصول تمام مذاہب اور کمیونٹیز کے ساتھ مساوی سلوک کرنا اور سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا ہے۔سوامی جی نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ مٹھ ہمیشہ سماجی انصاف، یکجہتی اور مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا رہا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ ان کے بیان کو ایک غیر ارادی لغزش کے طور پر دیکھا جائے اور اس معاملے کو غیر ضروری طور پر بڑھانے سے گریز کیا جائے۔ مٹھ نے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ مستقبل میں بھی معاشرے کی خدمت اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کرتا رہے گا۔
یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب ریاستی حکومت اور کئی اہم سیاسی اور سماجی تنظیموں نے ان کے بیان کے اثرات پر ناراضگی ظاہر کی۔ یہ دباؤ خاص طور پر مسلمانوں کی جانب سے شدید احتجاج اور مطالبات کے بعد بڑھا۔ وضاحت کے باوجود، سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے اور اس معاملے میں مزید کارروائی ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے بیانات سے بچا جا سکے۔