اعتکاف؛حقیقت،حکمت اورفضیلت ۔۔۔۔ از:عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے اس لئے وہ رہبانیت کے بھی خلاف ہے اور نری مادہ پرستی کے بھی۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اس دنیا کے مال ومتاع سے فائدہ اٹھاؤ، خواہشات کو جائز طریقے سے پورا کرو؛البتہ حد سے تجاوز مت کرو،ساتھ ہی اپنے اخلاق وروحانیت کے جذبے کو کبھی افسردہ اور مردہ نہ ہونے دو،تمام انبیاء نے ہر دور میں اسی کے لئے کوشش کی اور جب بھی انسانیت، مادیت اور حیوانیت کی زد میں آکر ہلاک ہونے کے قریب ہوئی انہوں نے اخلاق وروحانیت پیدا کرنے کے اسباب مہیا کئے۔
یہ حقیقت ہے کہ فطری طورپرہرانسان اپنے گردوپیش کے ماحول سے متاثرہوتاہے اور اس کے مثبت یا منفی اثرات قبول کرتاہے؛اسی بناء پراللہ تعالی نے اپنے بندوں کی روحانی تربیت کا یہ نظام بنایاکہ سال میں ایک مہینہ مقررفرمادیا؛جس میں صیام النہاراورقیام اللیل کے علاوہ اخیر عشرے میں اعتکاف کے ذریعہ بندہ حیوانیت کو مغلوب اور ملکوتیت کو غالب کرسکتاہے۔
اعتکاف کیاہے؟: عربی زبان میں اعتکاف کے معنی‘‘ٹہرنے،جمے رہنے اورکسی مقام پراپنے آپ کوروکے رکھنے ’’کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں عبادت کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے لئے مسجد میں رکے رہنے کا نام اعتکاف ہے۔اعتکاف ایک اہم ترین عبادت اور قرب خداوندی کا بہترین ذریعہ ہے؛مسندالہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اعتکاف کامقصدیوں بیان فرماتے ہیں کہ جب انسان کے افکار اوراذہان مختلف باتوں سے پراگندہ ہو جاتے ہیں اور لوگوں کے میل جول سے آدمی سخت پریشان ہو جاتاہے تو اس پراگندگی اور پریشانی کودورکرنے کے لئے اللہ تعالی نے اعتکاف کومشروع فرمایاہے، اعتکاف بیٹھنے والا آدمی عام لوگوں سے علیحدگی اختیار کر کے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہو جاتا ہے؛جس کی بدولت اس کی ذہنی پریشانی اورقلبی اضطراب دورہوجاتا ہے۔(حجۃ اللہ البالغۃ)
اعتکاف کی حقیقت:اعتکاف کی حقیقت خلق سے منقطع ہوکر خالق سے وابستہ ہوجاناہے اور یہ رب العزت کا خصوصی لطف و احسان ہے کہ وصال حق کی وہ منزل جو اممِ سابقہ کو زندگی بھر کی مشقتوں اور مسلسل ریاضتوں کے نتیجے میں بھی حاصل نہیں ہوتی تھی فقط چند روز کی خلوت نشینی سے امت محمدیہ کو میسر آسکتی ہے۔چنانچہ اعتکاف کی روح یہ ہے کہ انسان چند روز کے لئے علائق دنیوی سے کٹ کر گوشہ نشین ہوجائے، ایک محدود مدت کے لئے مکمل یکسوہو کر اللہ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کرلے، اپنے من کو آلائش نفسانی سے علیحدہ کر کے اپنے خالق و مالک کے ذکر سے اپنے دل کی دنیا آباد کرلے، مخلوق سے آنکھیں بند کر کے اپنے معبودسے لو لگائے، جب انسان ان کیفیات سے معمور ہوکر، دنیا و مافیھا سے کٹ کر اپنے خالق و مالک کے درپرپڑجاتاہے تو اس کے یہ چند ایام سال بھر کی عبادت اورطاعت پر بھاری ہوجاتے ہیں۔
اعتکاف کی اقسام:
فقہائے کرام نے اعتکاف کی تین قسمیں بیان فرمائی ہیں۔
(۱) واجب اعتکاف:یہ وہ اعتکاف ہے؛جس میں بندے نے نذر مانی ہو کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے اتنے دن اعتکاف کروں گا، جتنے دن اعتکاف کی نذر مانی ہو اتنے دن کا اعتکاف کرناضروری ہے؛مگر اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی ضرور رکھے گا؛ کیونکہ روزہ صحت اعتکاف کے شرائط میں سے ہے۔
(۲) سنت اعتکاف:یہ وہ اعتکاف ہے؛جو عام طور پر رمضان کریم کے آخری عشرے میں ہوتا ہے۔ حضور ﷺنے ہر رمضان میں یہ اعتکاف کیا ہے،اس وجہ سے یہ سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے۔ اگر پورے محلہ میں سے ایک یا چندافراد نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب کا ذمہ ساقط ہو جائے گا ورنہ سب پر اس کا وبال (گناہ) ہوگا۔
(۳)مستحب اعتکاف:یہ وہ اعتکاف ہے؛جس کے لیے کوئی وقت اور اندازہ مقرر نہیں ہے؛بلکہ جتنا وقت بھی مسجد میں ٹہرے تو اعتکاف ہوگا اگر چہ تھوڑی دیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ افضل تو یہ ہے کہ آدمی مسجد میں داخل ہوتے ہی اعتکاف کی نیت کر لے تو نماز اور نفل وغیرہ کے ثواب کے ساتھ ساتھ اعتکاف کا ثواب بھی پاتا رہے گا۔ (شامی)
آداب اعتکاف:
یوں تو فقہاء کرام نے کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ اعتکاف کے آداب و مستحبات بیان فرمائے ہیں۔یہاں اختصار کے پیش نظر چنداہم آداب کے ذکر پر اکتفا کیاجارہاہے۔
۱)سب سے پہلے اپنی نیت کو خالص کرے؛کیوں کہ ہر عمل نیت کے مطابق مقبول ہوتاہے۔
۲)اعتکاف کے لیے فضیلت والی مسجد کا انتخاب کرے، جیسے مکہ مکرمہ کے باشندے کے لیے مسجد حرام، مدینہ منورہ میں رہنے والے کے لیے مسجد نبوی، بیت المقدس کے رہنے والے کے لیے مسجد اقصٰی اور دوسرے علاقوں میں رہنے والوں کے لئے جامع مسجدوغیرہ۔
۳(صرف بھلائی ہی کی بات کرے یاخاموش رہے،لایعنی اور بے کار گفتگو سے مکمل اجتناب کرے۔
۴)قرآن کریم کی تلاوت، اذکار مأثورہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود اور دینی کتب کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھے۔
۵(مسجد کی نظافت وصفائی اوردیگرحدود کاخاص خیال رکھے۔وغیرہ
اعتکاف کے عظیم فوائد وثمرات:
معتکف کے لیے اعتکاف کے بہت سے فوائد و ثمرات اور خصائص و امتیازات ہیں؛جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۱)مُعتکف کو دنیا کی سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ جگہ پر دس دن گزارنے کا موقع ملتا ہے۔جیساکہ حدیث میں آتا ہے: شہروں میں سب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ جگہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی مساجد ہیں۔(مسلم)
۲)مسجد میں آنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے لہٰذا مُعتکف کے لیے یہ کتنی بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ وہ دس دن تک دن رات اللہ تعالیٰ کی میزبانی میں ہوتا ہے،چنانچہ اِرشادِ نبوی ہے: بیشک مساجد زمین میں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ اُن لوگوں کا اِکرام کریں گے جو مساجد میں (عبادت وغیرہ کے لیے آکر)اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں۔(شعب الایمان)
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد نماز پڑھنے کے لیے جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کا زائر یعنی زیارت کرنے والا مہمان ہے اور میزبان کا(اخلاقی و شرعی)حق بنتا ہے کہ وہ اپنے مہمان زائر کا اِکرام کرے۔(ابن ابی شیبہ)
۳)اعتکافِ مسنون میں بیٹھنے والے دس دن تک مسجدوں کو دن رات آباد کرنے والے ہیں،اورحدیث کے مطابق مسجدوں کو آباد کرنے والے ”اہل اللہ“یعنی اللہ والے ہیں۔(شعب الایمان)لہٰذا معتکف کو اعتکاف کی عظیم عبادت کی برکت سے اہل للہ ہونے کا شرَف بھی حاصل ہوتا ہے۔
۴)اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو دس دن تک دن رات فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوتی ہے، اِس لئے کہ مسجدوں میں جم کر رہنے والوں کے ہمراہ فرشتے ہوتے ہیں؛جیساکہ حضرت سعید بن المسیّب ؒکا قول ہے:بیشک مسجد کے لیے کچھ لوگ میخوں یعنی کیلوں کی طرح ہوتے ہیں (کِیل کی طرح مسجدوں میں جمے ہوئے ہوتے ہیں)اور اُن کے ہم نشیں فرشتے ہوتے ہیں، پس جب وہ فرشتے کبھی اُن لوگوں کو مسجد میں نہیں پاتے تو ایک دوسرے سے اُن کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، اگر وہ بیمار ہوتے ہیں تو اُن کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ کسی حاجت میں پھنسے ہوتے ہیں تو اُن کی مدد کرتے ہیں۔ (مصنّف ابن ابی شیبہ)
۵)مسجدیں شیطان سے بچنے اور اُن سے محفوظ رہنے کے لیے بہت ہی مضبوط قلعے اور محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔مُعتکف کو اعتکاف کی برکت سے یہ محفوظ اورمضبوط پناہ گاہ حاصل ہوتی ہے۔نبی کریمﷺکا اِرشادہے:بے شک شیطان انسان کا بھیڑیا (دشمن)ہے جیسے بکریوں کا (دشمن)بھیڑیا ہوتا ہے، وہ موقع پاتے ہی الگ ہونے والی اور کنارے ہونے والی بکری کوپکڑلیتاہے،پس تم گھاٹیوں (میں الگ ہوجانے)سے بچواوراپنے اوپر جماعت (کے ساتھ وابستگی)کو،اکثریت کو اور مسجد کولازم کرلو۔(مسند احمد)
۶)اعتکاف کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ معتکف دس دن تک اللہ تعالیٰ کے ضمان میں ہوتا ہے،اِس لئے کہ وہ مسلسل دن رات مسجد میں ٹہرا رہتا ہے اور حدیث کے مطابق مساجد میں رہنے والے اللہ تعالیٰ کے ضمان میں ہوتے ہیں،چنانچہ اِرشادِ نبوی ہے:چھ مجلسیں ایسی ہیں جن میں سے ہر مجلس میں مومن اللہ تعالیٰ کے ضمان میں ہوتا ہے:۱) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں۔۲)جماعت سے نماز ہونے والی مسجد میں۔۳)مریض کے پاس۔۴) جنازے کے پیچھے جانے میں۔۵)میت کے گھر میں۔ ۶)امامِ عادل کے پاس (اُس کی مدد و نصرت کے لیے)۔(کشف الاستار عن زوائد البزار)
۷)معتکف کو اعتکاف کی برکت سے یہ خوش قسمتی حاصل ہوتی ہے کہ وہ دس دن تک مسجد میں رہنے کی وجہ سے نماز میں ہوتا ہے یعنی اُسے نماز کا ثواب حاصل ہوتا رہتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے: گھر سے مسجد جانے والا اپنے نکلنے سے لے کر واپس لوٹنے تک نمازپڑھنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔(السنن الکبریٰ للبیہقی)
موجودہ حالات میں اعتکاف:اس وقت پورا ملک کورونا وائرس کے سبب خوف و دہشت کی عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہے،مختلف ریاستوں میں مکمل لاک ڈاون کا اعلان ہوچکاہے،کچھ ریاستوں میں رات کا کرفیو نافذ ہے اور دیگر مقامات پر سماجی فاصلے کی رعایت از حد ضروری ہے۔ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ امسال مسلمان مسنون اعتکاف کیسے کریں؟
اس حوالے سے عرض ہے کہ جن علاقوں میں مکمل لاک ڈاون ہے اور مساجد میں باجماعت نماز پر بھی پابندی عائد ہے، وہاں امام صاحب یا موذن صاحب یا مسجد سے متصل رہنے والے فکرمند نوجوانوں میں سے کوئی ایک حسب سہولت اعتکاف کی ترتیب بناسکتے ہیں اور صفائی ستھرائی،سماجی فاصلے وغیرہ کی رعایت کے ساتھ مسنون اعتکاف کرسکتے ہیں۔نیزجن علاقوں میں ابھی زیادہ پابندی نہیں ہے، باجماعت نماز کا اہتمام ہورہاہے، وہاں بھی بھیڑ لگاکر اعتکاف کرنے کے بجائے چند ہی لوگ اپنے طور پر اعتکاف کرلیں اور یکسوئی کے ساتھ عبادات میں منہمک رہیں۔
اگر منصوبہ بندی اور آپسی مشورے کے ذریعہ اعتکاف کا نظام بنایاجائے گا تو ان شاء اللہ کوئی دشواری نہیں ہوگی اور ہر مسجد میں مسنون اعتکاف کا عمل ہوسکے گاخواہ ایک فرد کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اور پوری انسانیت کو اس وائرس سے نجات عطا فرمائے اور تمام بیماروں کے حق میں شفاء عاجل مقدر فرمائے۔آمین یارب العالمین