کیانریندرمودی ملک کوجنگ کی طرف لے جارہے ہیں ؟ از:نہال صغیر

Source: S.O. News Service | By Safwan Motiya | Published on 10th August 2017, 11:50 AM | آپ کی آواز |

(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)یہ کسی مجذوب کی بڑ نہیں ہے۔ملک جانے انجانے میں جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ہر بیتے ہوئے لمحے کے ساتھ جنگ کے مہیب سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں ۔لیکن ملک کو اس دوران اندرونی خلفشار سے بھی جوجھنا پڑرہا ہے ۔بد نصیبی سے ملک پر ایسی طاقتیں حکومت کررہی ہیں جو اس کے اندرون کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔کسی بھی ملک یا قوم کو باہر کے دشمن سے زیادہ اندرونی خلفشار سے خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔ ٹھیک یہی معاملہ آج یہاں ہے کہ چین یا پاکستان سے زیادہ اندرونی فرقہ وارانہ جھگڑے اس کے اتحاد و سا لمیت کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے ۔چینی میڈیا کا موجودہ حالات میں پیش قیاسی کی کوشش ہے کہ نریندر مودی ہندوستان کو جنگ میں دھکیل رہے ہیں اس اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے نتائج سے دنیا واقف ہے ۔دو روز قبل سشما سوراج نے پارلیمنٹ میں ایک کانگریسی رکن کے سوالات کے جواب میں بھی یہ کہا کہ ہماری فوجی قوت کسی سے کم نہیں لیکن جنگ کی بجائے سفارتی کوششوں سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ چینی اخبار نے الزام عائد کیا کہ مودی حکومت ملک کو صحیح صورتحال نہیں بتا رہی ہے ۔یہ تو چینی اخبار کی جانب سے چھیڑی گئی جنگ سے قبل ایک نفسیاتی حملہ ہے ۔اس جانب سے ہندوستان کو مرعوب کرنے کیلئے بار بار چینی میڈیا میں یہ پھیلایا جارہا ہے کہ اس کی اور ہندوستانی فوجی قوت کا توازن کیا ہے ۔ہمارے یہاں بھی کچھ ایسا ہی میڈیا وار جاری ہے ۔اس میڈیا وار میں بار بار وزیر اعظم کو ایک عجیب کرشماتی مخلوق بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں اور کس طرح چین کو زک پہنچائی ہے ۔یہ بھی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہی وہ وزیر اعظم ہیں جنہوں نے ملک کا وقار پوری دنیا میں بلند کیا ہے ۔چین کے معاملہ میں ہی انہوں نے سفارتی کوششوں کو کچھ ایسا کارآمد بنایا ہے کہ پوری دنیا فی الحال ہندوستان کے ساتھ ہے اور چین کی شرارت سے پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔اب تو آر جے نوید نے بھی اپنے مخصوص انداز میں ایک آڈیو پیغام وائرل کیا ہے جس میں کسی شخص سے کہا گیا ہے کہ وہ کیوں ہندوستانی فوج کو چینی فوجیوں سے کم آنکتا ہے اس سے ہمارے فوجیوں کا حوصلہ کمزور پڑے گا ۔ہم یہ بالکل بھی نہیں کہیں گے کہ ہندوستان چین سے یہ جنگ ہار جائے گا اور نا ہی ایسا کہنا ہمیں زیب دیتا ہے ۔لیکن ہمیں یہ حق تو ہے ہی کہ ہم اپنی حکومت سے سوال کریں کہ اس نے ملک کی دفاعی پوزیشن کس حد تک مضبوط کی ہے اور اس کی فوجی تیاریاں کہاں تک ہیں؟اس طرح کے سوال پر ملک مخالف ہونے کا نظریہ چسپاں نہیں کرنا چاہئے ۔موجودہ جنگی حالت میں ایک ہندی روزنامہ نے برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈس کے رکن میگھ ناتھ دیسائی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کے ساتھ جنگ میں امریکہ ہندوستان کے ساتھ ہوگا ۔لیکن یہ جنوبی چین کے سمندر کے حالات پر منحصر ہے ۔یہاں امریکہ کا ہندوستان کے ساتھ آنا بعید از قیاس اس لئے نہیں ہے کہ اس پورے علاقے میں چین کی بڑھتی قوت اور اس کے اثرات سے امریکی مفاد کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔لیکن جو بات یہاں سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بڑی طاقتیں عام طور پر سیدھے ٹکراؤ سے بچنے کی کوشش کرتی ہیں ۔لہٰذا امریکہ بھی چین کے ساتھ راست ٹکراؤ سے بچنے کی ہی کوشش کرے گا ۔ میگھ ناتھ دیسائی کا یہ خدشہ بھی اخبار نے نوٹ کیا ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو وہ صرف ڈوکلام تک ہی محدود نہیں رہے گی کئی محاذوں پر لڑی جائے گی اس کی وسعت اور ہولناکی جنوبی چین کے سمندر میں چینی اور امریکی مفاد پر منحصر ہے اس محاذ پر بھی جنگ ہو گی نیز یہ جنگ مختصر مدت کیلئے نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک لمبے عرصہ تک لڑی جانے والی جنگ بھی بن سکتی ہے ۔دوسری رائے میری ہے کہ اگر اس جنگ میں امریکہ ہندوستان کے ساتھ آتا ہے تو پھر یہیں سے تیسری جنگ عظیم کی بھی داغ بیل پڑ جائے گی اور دنیا ایک بھیانک تباہی سے دو چار ہو گی۔
ممکن ہے کہ 1962کی ہند چین جنگ میں بھی یہی حالت رہی ہو کہ مہینوں سے میڈیا کے ذریعہ پروپگنڈہ کیا جاتا رہا ہو۔ممکن ہے ایسا نہیں بھی ہوا ہو کیوں کہ ہندوستان نے چین سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بلند ہوا تھا لیکن چین نے دھوکہ دیا اور جنگ ہوئی اور ہمیں بھاری ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔لیکن اکیسویں صدی چونکہ میڈیا کا زمانہ ہے تو اس میں پروپگنڈہ جنگ کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہ بات دنیا کی کئی اہم شخصیات مان چکی ہیں کہ اب جنگ دو محاذوں پر لڑی جاتی ہے ایک فوجی لڑتے ہیں اور دوسری جنگ صحافیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔ اندرون ملک ہمارا میڈیا جس کی اکثریت موجودہ حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز ہے اس نے ہمیں گمراہ کرنے کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری رکھا ہوا ہے ۔لیکن ایک بات تو سامنے آرہی ہے کہ ہم بہر حال بہت ساری حیل و حجت کے بعد یہ مان لینے کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان نہیں چین ہے ہمارا اصلی دشمن ۔لیکن ہم نے یہ ماننے میں ستر سال لگا دیئے ۔اگر ستر سال پہلے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہوتا کہ چین سے ہمارا مقابلہ ہے تو آج ہماری معاشی اور فوجی قوتیں چین سے آگے نہیں تو اس سے کم بھی نہیں ہوتیں۔ہم نے ہمیشہ سرحد پر ہونے والی چینی گھس پیٹھ سے نظریں چرائیں اور صرف نظریں نہیں چرائیں بلکہ اپنے عوام کو بھی اس سے بے خبر ہی رکھا ۔پچھلے تین برسوں سے خبروں پر نظر رکھنے پر یہ معلوم ہوا کہ چین سرحد پر گھس پیٹھ کرتا رہا لیکن ہم نے اس کو خبر کا حصہ بھی نہیں بننے دیا ۔بس آن لائن کسی ویب سائٹ سے زیادہ اس خبر کو کہیں جگہ دینے کو راضی نہیں ہوئے ۔ ہمارے ارکان پارلیمان و اسمبلی میں سے کوئی چین پر لب کشائی کرنے کو راضی نہیں ہوتا تھا سب کی زبان پر بس ایک ہی مشترکہ دشمن پاکستان کا نام ہوا کرتا تھا ۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کرکے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول گرم کیا جاسکتاہے اور اس کی وجہ سے ووٹوں کا ارتکاز بھی ممکن ہو سکتا ہے ۔لیکن چین کے بارے میں حقیقت بیان کرکے بھی کوئی ووٹوں کی سیاست ممکن نہیں تھی ۔یعنی ہماری دیش بھکتی کا سارا کھیل ووٹوں کی حصولیابی تک ہی سمٹا ہوا ہے ۔ہمارا یہ رویہ ایسا ہی تھا جیسے شتر مرغ نے ریت میں منھ چھپا کر سوچ لیا ہو خطرہ ٹل گیا ۔اب اگر ہم ماننے لگے ہیں کہ چین ہی ہمارا اصل دشمن ہے تو پھر اس جانب پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہماری تیاری بھی اسی طرح کی ہو ۔اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ملک کے ماحول میں کشیدگی پائی جاتی ہے اسے دور کیا جائے ۔یاد رکھنا چاہئے اندرونی جھگڑوں میں پھنسی قوم کبھی بیرونی خطروں کا سامنا نہیں کرسکتی ۔یہ جو کچھ لوگوں کو مذہبی جنون کا دورہ چڑھا ہے اسے ٹھنڈا کیا جائے ۔امن و امان کی صورتحال بحال کی جائے ۔یہ سب کچھ حالت امن میں تو آسانی سے ممکن ہے لیکن جب جنگ مسلط ہوجائے گی تو پھر اس اندرونی حالت کو سدھارنا ناممکن ہو جائے گا۔ 
بہرحال چینی میڈیا کے اس الزام میں سچائی نظر نہیں آتی کہ مودی حکومت ملک کو جنگ میں دھکیل رہی ہے ۔کم از کم چین کی حد تک تو نہیں ۔بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ بھی جنگ کے معاملہ میں ہندوستان بڑا محتاط قدم اٹھانے والا ملک ہے ۔اس کا سبب جو بھی ہو لیکن اسے معلوم ہے کہ جنگ مسائل کو جنم دیتی ہے مسئلہ ختم نہیں ہوتا ۔یہ محض چین کا پرپگنڈہ ہے ۔محاذ جنگ پر فوجیوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ سے قبل ہندوستان کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائے کیوں کہ ہمیں فی الحال ہماری سفارتی کوششوں کے بارے میں مکمل جانکاری ہی نہیں ہے اور نا ہی اس کے اثرات کے بارے میں معلومات ہے۔ویسے بھی دنیا ہمیشہ طاقتور کے ساتھ ہوتی ہے جس سے اس کے مفاد وابستہ ہوتے ہیں ۔یہاں کی میڈیا میں جو کچھ باتیں دیکھ رہا ہوں وہ محض جوش و خروش ہے اور اس میں کسی عظیم ملک کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔اس وقت پوری دنیا میں ہمارے یہاں حکومتی سرپرستی میں جاری عوامی اور ہجومی تشدد کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ۔
 

ایک نظر اس پر بھی

تبلیغی جماعت اور اس کے عالمی اثرات ..... از: ضیاء الرحمن رکن الدین ندوی (بھٹکلی)

​​​​​​​اسلام کا یہ اصول ہے کہ جہاں سے نیکی پھیلتی ہو اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں سے بدی کا راستہ پُھوٹ پڑتا ہو اس کو روکا جائے،قرآن مجید کا ارشاد ہے۔”تعاونوا علی البرّ والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان“

سماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین ، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک ...

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ۔۔۔۔۔۔از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ...

بھٹکل: تعلیمی ادارہ انجمن کا کیسے ہوا آغاز ۔سوسال میں کیا رہیں ادارے کی حصولیابیاں ؟ وفات سے پہلےانجمن کے سابق نائب صدر نے کھولے کئی تاریخی راز۔ یہاں پڑھئے تفصیلات

بھٹکل کے قائد قوم  جناب  حسن شبر دامدا  جن کا گذشتہ روز انتقال ہوا تھا،   قومی تعلیمی ادارہ انجمن حامئی مسلمین ، قومی سماجی ادارہ مجلس اصلاح و تنظیم سمیت بھٹکل کے مختلف اداروں سے منسلک  تھے اور  اپنی پوری زندگی  قوم وملت کی خدمت میں صرف کی تھی۔بتاتے چلیں کہ  جنوری 2019 میں ...

تفریح طبع سامانی،ذہنی کوفت سے ماورائیت کا ایک سبب ہوا کرتی ہے ؛ استراحہ میں محمد طاہر رکن الدین کی شال پوشی.... آز: نقاش نائطی

تقریبا 3 دہائی سال قبل، سابک میں کام کرنے والے ایک سعودی وطنی سے، کچھ کام کے سلسلے میں جمعرات اور جمعہ کے ایام تعطیل میں   اس سے رابطہ قائم کرنے کی تمام تر کوشش رائیگاں گئی تو، سنیچر کو اگلی ملاقات پر ہم نے اس سے شکوہ کیا تو اس وقت اسکا دیا ہوا جواب   آج بھی ہمارے کانوں میں ...