ہندوستان نے اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کی رکنیت کے حق میں ووٹ دیا

Source: S.O. News Service | Published on 11th May 2024, 10:08 AM | ملکی خبریں | عالمی خبریں |

ہیگ، 11/مئی (ایس او نیوز /ایجنسی) ہندوستان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین اہل ہے اور اسے اقوام متحدہ کا مکمل رکن کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور سلامتی کونسل کو اس معاملے پر فلسطین کے حق میں دوبارہ غور کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ۱۹۳؍رکنی جنرل اسمبلی کاصبح ایک ہنگامی خصوصی اجلاس ہوا جہاں اقوام متحدہ میں ریاست فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت میں عرب گروپ کی قرارداد `اقوام متحدہ میں نئے اراکین کی شمولیت پیش کی گئی۔ قرارداد کے حق میں بشمول ہندوستان۱۴۳؍ووٹ پڑےجبکہ ۹؍، مخالفت میں اور ۲۵؍ غیر حاضر رہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد یو این جی اے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ قرارداد میں طے کیا گیا کہ ریاست فلسطین رکنیت کے لیے اہل ہے۔ 

ہندوستان پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے ۱۹۷۴ءمیں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو فلسطینی عوام کے واحد اور جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کیا، ہندوستان۱۹۸۸ءمیں بھی فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا اور ۱۹۹۶ءمیں دہلی نے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کا نمائندہ دفترکا افتتاح کیا۔ جسے بعد میں ۲۰۰۳ءمیں رام اللہ منتقل کر دیا گیا۔ 

اس ماہ کے شروع میں، اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل مندوب روچیرا کمبوج نے کہا تھا کہ’’ اقوام متحدہ میں رکنیت کے لیے فلسطین کی درخواست کو سلامتی کونسل میں ویٹو کی وجہ سے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ میں یہاں شروع میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہندوستان کے دیرینہ موقف کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر مناسب وقت پر دوبارہ غور کیا جائے گا اور فلسطین کی اقوام متحدہ کا رکن بننے کی کوشش کی توثیق ہو جائے گی۔ ‘‘قرارداد کے ایک ضمیمہ میں کہا گیا ہے کہ ریاست فلسطین کی شرکت کے اضافی حقوق اور مراعات اس سال ستمبر میں شروع ہونے والے جنرل اسمبلی کے ۷۹؍ویں اجلاس سے موثر ہوں گے۔ 

ان میں رکن ممالک کے درمیان حروف تہجی کی ترتیب میں بیٹھنے کا حق شامل ہے: کسی گروپ کی جانب سے بیان دینے کا حق، بشمول بڑے گروپوں کے نمائندوں کے درمیان؛ ریاست فلسطین کے وفد کے ارکان کا جنرل اسمبلی کی پلینری اور مین کمیٹیوں میں بطور افسر منتخب ہونے کا حق اور اقوام متحدہ کی کانفرنسوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں مکمل اور موثر شرکت کا حق۔ فلسطین، ایک مبصر ریاست کی حیثیت سے، جنرل اسمبلی میں ووٹ ڈالنے یا اقوام متحدہ کے اداروں کے سامنے اپنی امیدواری پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ 

اپریل میں فلسطین نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ایک خط بھیجا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست پر دوبارہ غور کیا جائے۔ کسی ریاست کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کیلئے، اس کی درخواست کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں سے منظور کیا جانا چاہیے، جہاں ریاست کو مکمل رکنیت دینے کے لیے دو تہائی ارکان کی موجودگی اور ووٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکا نے سلامتی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔ ۱۵؍ملکی کونسل نے ایک مسودہ قرارداد پر ووٹ دیا تھا جس میں اقوام متحدہ کی ۱۹۳؍رکنی جنرل اسمبلی سے سفارش کی گئی تھی کہ ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ میں رکنیت عطا کی جائے۔

قرارداد کے حق میں ۱۲؍ووٹ پڑے، سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ نے حصہ نہیں لیا اور امریکا نے اسے ویٹو کر دیا۔ منظور کیے جانے کے لیے، مسودہ قرارداد کے لیے کونسل کے کم از کم نو اراکین کو اس کے حق میں ووٹ دینے کی ضرورت تھی، اس کے پانچ مستقل اراکین - چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ میں سے کسی کے ویٹو کے بغیر۔ فی الحال، فلسطین اقوام متحدہ میں ایک غیر رکن مبصر ریاست ہے، یہ درجہ اسے ۲۰۱۲میں جنرل اسمبلی نے دیا تھا۔ یہ درجہ فلسطین کو عالمی ادارے کی کارروائیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے لیکن وہ قراردادوں پر ووٹ نہیں دے سکتا۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں واحد دوسری غیر رکن مبصر ریاست ہولی سی ہے، جو ویٹیکن کی نمائندگی کرتی ہے۔

ایک نظر اس پر بھی

ہماچل پردیش کی سنجولی مسجد کی بعض منزلوں کو منہدم کردیا گیا؛ کیا ہے پورا معاملہ

بی جے پی کارکنوں اور بعض ہندو تنظیموں کے شدید احتجاج اور مسجد کو گرانے کی بڑھتی مانگ کے بعد پتہ چلا ہے کہ وقف بورڈ نے ہماچل پردیش کی سنجولی مسجد کی بعض تعمیر شدہ منزلوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے

کشن گنج میں تحفظ ناموس رسالت و اوقاف کی کمیٹی تشکیل؛ شانِ رسالت میں گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی

معہد سنابل للبنات، تالباڑی چھترگاچھ میں بین المسالک علمائے کرام کی ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں تحفظ ناموس رسالت و اوقاف کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس میٹنگ میں علاقے کے معروف علمائے دیوبند، علمائے اہل حدیث اور علمائے بریلوی نے شرکت کی اور ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جس کا ...

جے پی سی میٹنگ میں وقف ترمیمی بل کو لے کر مسلم تنظیموں نے کی شدید مخالفت، اپوزیشن نے کیے تیز وتند سوالات؛ اے ایس آئی اہلکاروں پر جے پی سی کو گمراہ کرنے کا الزام ؛ مقدمہ درج کرنے کا انتباہ

وقف (ترمیمی) بل پر غور کرنے کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کی چوتھی میٹنگ میں بھی زبردست ہنگامہ ہوا اور  اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پارلیمان نے تیز و تند سوالات کرتے ہوئے   ں محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے دی گئی پیشکش کو غلط قرار دیتے ہوئے میٹنگ میں ہنگامہ  برپا کیا۔

مدھیہ پردیش کے جبل پور میں سومناتھ ایکسپریس کے دو ڈبے پٹری سے اترگئے؛ رفتار دھیمی ہونے کی وجہ سے ٹل گیا بڑا حادثہ

مدھیہ پردیش کے جبل پور میں ایک ریل حادثہ پیش آیا ہے جہاں سومناتھ ایکسپریس کے 2 ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ سومناتھ ایکسپریس اندور سے جبل پور آ رہی تھی کہ اسی دوران یہ ریلوے اسٹیشن کے پاس 'ڈی ریل' ہو گئی۔ ریلوے افسران کا کہنا ہے کہ ٹرین کے اسٹیشن پلیٹ فارم پہنچنے کی وجہ سے اس کی رفتار ...

بنگال اسمبلی میں منظور 'اپراجیتا' بل، پر بہت ساری خامیاں ہونے کا بنگال گورنر کا دعویٰ؛ غور کرنے صدرہند کو کیا گیا روانہ

مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس نے اسمبلی سے منظور کردہ ’اپراجیتا بل‘ کو غور کے لیے صدر دروپدی مرمو کو بھیج دیا ہے۔ چیف سکریٹری منوج پنت نے دن کے وقت گورنر سی وی آنند بوس کو بل کی تکنیکی رپورٹ پیش کی تھی، اسے پڑھنے کے بعد گورنر نے بل کو مرمو کو بھیج دیا۔ واضح رہے کہ اپراجیتا ...

بنگلہ دیش میں ہنگاموں کی وجہ سے دو طرفہ منصوبہ متاثر: ہندوستان

ہندوستان نے جمعہ یعنی 30 اگست کو بنگلہ دیش کی جانب سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حوالگی کے کسی بھی ممکنہ مطالبے کے معاملے پر تفصیل سے بات کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم ہندوستان  نے اعتراف کیا کہ پڑوسی ملک میں بدامنی کے باعث ترقیاتی منصوبوں پر کام رکا ہوا ہے۔

کملا ہیرس نے ٹرمپ کی مشکلیں بڑھائیں، ڈیموکریٹک امیدوار کو 200 سے زائد سابق ریپبلکن رہنماؤں کی حمایت حاصل

  امریکی صدارتی انتخاب دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن امیدوار ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی ہوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اس درمیان ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے، جس کے تحت انہیں 200 سے زائد سابق ریپبلکن رہنماؤں کی حمایت حاصل ہو ...