”مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے“ ۔۔۔۔۔ از:مولانا محمدحسن غانم اکرمیؔ ندوی ؔ
اگر تمھارے پاس کوئی شخص اپنی امانت رکھوائے،اورایک متعینہ مدت کے لئے وہ تمھارے پاس رہے،کیا اس دوران اس چیز کا بغیر اجازت اور ناحق تم استعمال کروگے،کیا ا س میں اپنی من مانی کروگے؟یا چند دن آپ کے پاس رہنے سے وہ چیز تمھاری ہو جائے گی کہ جب وقت مقررہ آجائے اور مالک اس کی فرمائش کرے تو تم دینے سے انکار کرو،کیا اس طرح کرنے کا حق ہے؟ اگر اس کو انکار کا حق نہیں ہے اور واقعۃ نہیں ہے اور اگر وہ چیز دن گزرتے اس کی ملکیت نہیں بنتی اور حقیقۃ ہرگز نہیں بنتی،اور اگر اس کو اس میں بلا اجازت تصرف کا حق نہیں ہے اور کسی بھی صورت میں بلااجازت تصرف کا حق نہیں ہے تو جان لو اللہ نے بھی ہمارے پاس امانتیں رکھوائی ہیں اور ان میں سب سے بڑھ کر خود ہماری جان ہے،اللہ نے ہم کو اس کا مالک نہیں بنایا بلکہ امین بنایا ہے،یہ ہماری ملکیت نہیں بلکہ امانت ہے ہم اس میں من مانی نہیں کر سکتے بلکہ وہی کرنے کا حکم ہے جو خالق نے کہا ہے اور ہر اس چیز سے بچنے کا حکم ہے جس سے پیدا کرنے والے نے روکا ہے،اس لئے سب سے پہلے ہمیں انسان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہی ضروری ہے سب سے پہلے بندہ یہ جانے کہ خالق نے اسے پیدا کیوں کیا؟ اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے۔
انسان کی تخلیق کا مقصد:
اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی آزمائش کے لئے اس کو دنیا میں بھیجا،اور اس کے لئے ایک وقت متعین کیا،اس دنیا میں اللہ نے اس کو کچھ اختیارات دئے اور ساتھ ہی عقل بھی دی اور ہر چیز کے انجام سے آگاہ کیا،وہ اگر برائی کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا اختیار ہے مگر بعد میں اس کا انجام خطرناک ہے،اسی طرح اچھائی کے راستہ پر جانا چاہے وہ چل سکتا ہے اور اس کا پھل ا س کو بعد میں ملے گا،پھر اس اختیار کے ساتھ اللہ نے اس کی آزمائش کے لئے نفس اور شیطان کو بھی اختیار دیا کہ وہ بنی نوع انساں کو ہر ممکن کوشش سے گمراہ کرے اور اس کو نجات ملنے نہ پائے،پھر اس امتحان کے ساتھ اللہ نے اس زندگی کو ہر طرف سے پریشانیوں اور مصیبتوں سے گھیرا، اس دنیا میں ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہے(لقد خلقنا الإنسان فی کبد)(البلد ۴)یہ سکون وراحت کی جگہ نہیں ہے یہ ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے یہاں کا سکون بھی عارضی، یہاں کی خوشی بھی گھڑی دو گھڑی، یہاں کی مصیبت بھی دائمی نہیں یہاں کی تکلیف بھی مستقل نہیں،مگر اس خوشی وغمی کے ماحول میں جو اللہ کی بات مانتا ہے اس کی اطاعت کو ضروری سمجھتا ہے اور اسی کا ہو کر زندگی گزارتا ہے وہ کامیاب وبامراد ہے اور جو خوشی میں پڑ کر اللہ کو بھول جائے یا تکلیف میں اللہ کے غیر کو پکارے وہ ناکام اور نامراد ہے۔
موت کا وقت مقرر ہے مگر موت کی تمنا کرنا منع ہے:
جس طرح اللہ نے ہر ایک کے آنے کا وقت متعین رکھا ہے اسی طرح جانے کا وقت بھی طئے کر رکھا ہے،پیدائش کی گھڑی تو کم وبیش ہر ایک کو یاد رہتی ہے مگر یہاں سے جانے کا وقت نہ کسی کو معلوم ہے اور نہ ہو سکتا ہے حق تعالی کا ارشاد ہے(وما تدری نفس بأی ارض تموت)(لقمان،۴۳) اور نہ اس میں کسی کو کوئی مہلت مل سکتی ہے(إذا جاء أجلہم فلا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون)(یونس ۹۴) اور مرنا ہرایک کو ہے اس سے رستگاری کسی کو نہیں ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ موت مومن کے لئے تحفہ ہے تحفۃ المؤمن الموت (طبرانی) مگر ان سب کے باوجود اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ کوئی موت کی تمنا نہ کرے اچھا ہو کہ برا اس لئے کہ اچھا ہے تو اس کی اچھائی میں اضافہ ہوگا اور اگر برا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے ……
عن أبی ھریرۃ ؓ أن رسول اللہ ﷺ قال: لا یتمنی أحدکم الموت إما محسنا فلعلہ یزداد وإما مسیئا فلعلہ یستعتب (رواہ البخاری ح۳۷۶۵)اور ایک جگہ یہ فرمایا
عن أنس ؓ قال، قال رسول اللہ ﷺ:لا یتمنی أحدکم الموت لضر نزل بہ،فإن کان لا بد فاعلا فلیقل اللہم أحیینی ماکانت الحیاۃ خیرا لی وتوفنی إذا کانت الوفاۃ خیرا لی(رواہ البخاری ۱۷۶۵)کہ اگر دعا کرنا ہی ہے تواس طرح کرو کہ یا اللہ اگر زندگی بہتر ہے تو زندگی دے دے اور ہمارے لئے موت بہتر ہے تو موت عطا فرما، یہ بھی اللہ ہی کے سپرد کیا کہ وہی جو ہمارے لئے بہتر ہے اور مناسب ہے کرے۔
کیا کوئی مومن سوچ بھی سکتا ہے؟
آدمی پر بسا اوقات مصائب کا ہجوم ہوتا ہے اور ہر پریشانی اسے جان لیوا معلوم ہوتی ہے کبھی فقر اور تنگی ستاتی ہے،کبھی قرضہ سوار رہتا ہے،کبھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتاہے کبھی ظلم سے آدمی مجبور ہوتا ہے اور کبھی کچھ تو کبھی کچھ،مصیبتیں ہی مصیبتیں،پریشانیاں ہی پریشانیاں اور اس میں بسا اوقات آدمی زندگی سے ہارتا ہے اور اس کشمکش میں ثابت نہیں رہ سکتا ہے اور وہ سوچتا ہے جو نہیں سوچنا چاہئے اور کبھی وہ قدم اٹھاتا ہے جو نہیں اٹھانا چاہئے اس لئے کہ وہی شخص سوچ سکتا ہے جس کے اندر ایمان نہ ہو جو اللہ کو اپنے ساتھ نہیں سمجھتا اور جسے آخرت کے دن پر ایمان نہ ہو اور اس دن کے جزاء وسزا پراسے یقین نہ ہو اس لئے کہ جسے یہ معلوم ہو کہ یہ زندگی چند روزہ ہے اور یہاں کا ہر فعل ہر عمل وہاں دکھایا جائے گا اور اس پر بدلہ ہے اور حقیقی زندگی وہی ہے تو کیونکر ایسا کوئی کام کرے گا جس کے بارے میں کل اسے پوچھا جائے گا اور پھر اس پر سزا ہوگی،آدمی کوئی بھی قدم اس لئے اٹھاتا ہے کہ اسے تکلیف سے چھٹکارا ملے اور پریشانی سے راحت ملے اور جب اسے یہ حتمی طور پر معلوم ہو کہ فلاں کام کرنے سے اسے راحت نہیں ملے گی تو پھر کیوں وہاں پھٹکے گا،اور کیا کسی مومن کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتانے کے بعد بھی شک ہوسکتا ہے وہ تو صادق ومصدوق ہیں وہ سچوں کے سچے ہیں ہماری آنکھیں، ہمارا مشاہدہ غلط ہوسکتا ہے مگر ہمارا اور ہر امتی کا یہ یقین ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی اور اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ آدمی اپنی موت کے سلسلہ میں جلدی کرتا ہے اور واضح الفاظ میں وہ خود کشی کرتا ہے تو جس طرح وہ اپنے کو ہلاک کرتا ہے اور جس تکلیف کے ساتھ کرتا ہے تو جہنم میں بھی اسے اسی طرح عذاب دیا جائے گا، ایک اور دو احادیث نہیں دسیوں حدیثیں ہیں جبکہ آپ ﷺ کی ایک حدیث بات ماننے والوں کے لئے کافی ہے،دل کے اطمینان کے لئے وافی ہے یہاں صرف ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ یہ کتنا سنگین معاملہ ہے اور کتنی توجہ کا طالب ہے۔
خود کشی کا انجام:
عن أبی ہریرۃ ؓ قال، قال رسول اللہ ﷺ:من تردی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردی فیہا خالدا مخلدا فیہا أبدا، ومن تحسی سما فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا،ومن قتل نفسہ بحدیدۃ، فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی نار جہنم خالدا مخلدا فیہا أبدا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی ہیں فرماتے ہیں کہ اللہ کے سول ﷺ نے فرمایا ”جس شخص نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کی وہ جہنم کے آگ میں بھی اسی طرح ہمیشہ گرتا رہے گا،اور جس شخص نے زہر پی کر خود کشی کرلی اس کے ہاتھ میں زہر ہوگا وہ دوزخ میں ہمیشہ زہر پیتا رہے گا اور جس شخص نے لوہے کے ہتھیار سے خود کو قتل کیا تو جہنم میں وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا اور ہمیشہ ہمیش وہ اس سے اپنے آپ کو مارتا رہے گا۔
یہ حدیث بخاری (۸۷۷۵)مسلم (۹۰۱)ترمذی (۴۴۰۲)نسائی(۴/۷۶)أبوداود(۲۷۸۳)ان سب میں الفاظ کی معمولی سی تبدیلی کے ساتھ موجود ہے،اس کے علاوہ اور کئی احادیث میں اس بات کی وضاحت ہے گویا کہ ایک عام اصول بیان کیا کہ ومن قتل نفسہ بشئی عذب بہ یوم القیامۃ کہ جس چیز کے ذریعہ آدمی اپنے آپ کو قتل کرے اسی سے اس کو جہنم میں عذاب دیا جائے گااور جہنم کی آگ کی سختی اس کے ساتھ ہے ہی،تو اس سے صاف معلوم ہوا کہ جو اپنے کو پھانسی دے کر مارتا ہے جہنم میں اس کی سزا وہی ہے اور اپنے آپ کو جلاتا ہے اس کو اسی طریقہ کا عذاب ہے اور جو جس طرح سے بھی اپنے کو ہلاک کرے اسی طرح کا عذاب وہاں بھگتے گا۔
وقتی تکلیف سے بچنے کے لئے ہمیشہ کی مصیبت میں گرفتار:
ذرا سوچنے کی بات ہے اپنی راحت کی خاطر،اپنے آرام کے لئے،اور تکلیفوں سے بچنے کے لئے اس نے اپنی جان تک دے دی مگر اللہ اور رسول کے طریقہ کے مطابق اور ان کے حکم مطابق نہیں کیابلکہ مخالف کیا تو راحت کے بجائے مزید ہمیشہ کی تکلیفوں میں پڑ گیا، دنیا کی تکلیف تو عارضی تھی وہ آج نہیں تو کل ختم ہوتی، دنیا کی ناکامی بھی پائیدار نہیں تھی وہ کامیابی میں بدل سکتی تھی،دنیا کی ذلت حقیقی نہیں تھی اس کو عزت حاصل کرنے کا موقع تھا مگر اس کی خاطر وہاں کی ابدی،دائمی اور ہمیشہ ہمیش کی تکلیف، ناکامی اور ذلت میں مبتلا ہو گیا جس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
دنیا میں سکون حاصل کرنے کے دو راستے:
اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے ایسے نسخے بھی بتائے جن کو اپنا کر آدمی اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی سکون کی زندگی حاصل کرسکتا ہے، بظاہر ہزار مصیبتوں میں رہ کر بھی اس کادل مطمئن رہ سکتا ہے،پریشانیوں میں گھر کر بھی وہ خوش رہ سکتا ہے ان میں سے ایک تقدیر پر ایمان ہے یہ ایک ایسا نسخہ ہے جس سے دل مطمئن ہوتے ہیں،تقدیر پر ایمان کیا ہے؟ یہی تو ہے کہ بندہ مالک کے ہر تصرف پر راضی رہے،دل سے یقین ہو کہ جو بھی واقعہ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور اللہ کے علم میں وہ بات ہے(ما أصاب من مصیبۃ فی الأرض ولا فی السماء إلا فی کتاب من قبل أن نبرأہا إن ذلک علی اللہ یسیر لکیلا تأسو علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم واللہ لایحب کل مختال فخور)(سورہ حدید۲۲،۳۲) جو بھی مصیبت زمین پر اتری ہے یا تمھاری جانوں کو لاحق ہوتی ہے وہ اس وقت سے کتاب میں موجود ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا یقینا اللہ کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں، تاکہ جو چیز تم سے چھوٹ جائے اس پر غم نہ کرو اور جو وہ تمھیں دے دے اس پر اتراو نہیں اور اللہ کسی بھی اکڑنے والے شیخی باز کو پسند نہیں فرماتا۔جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اوراللہ کو ہر چیز کی خبر ہے اور اللہ نے ہماری پیدائش سے پہلے ہی سب کچھ لکھ دیا ہے تو اسے زیادہ غم نہیں ہوگا اور جب تک آدمی کو اس بات پر مکمل یقین نہ ہو تو اس کا ایمان تقدیر پر مکمل نہیں ہوتا اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا لا یؤمن عبد حتی یؤمن بالقدر خیرہ وشرہ،حتی یعلم أن ما أصابہ لم یکن لیخطۂ وأن ما أخطأہ لم یکن لیصیبہ (ترمذی ح ۱۵۱۲) کہ جب تک تقدیر پر بندہ ایمان نہ لائے اچھی ہو کہ بری اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا یہاں تک کہ اسے یہ یقین ہو کہ جو چیز اسے لاحق ہوئی ہے وہ چھوٹنے والی نہیں تھی اور جو چھوٹ گئی ہے وہ لاحق ہونے والی نہیں تھی۔
دوسری چیز جس سے اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے وہ اللہ کی یاد ہے اس کاذکر ہے اس کے بغیر کسی چیز سے دل سکون نہیں پاتے مال ودولت،حکومت وسلطنت یہ سب چیزیں فتنوں اور پریشانیوں کو بڑھانے والی ہیں سکون وعافیت صرف اور صرف اللہ کی یاد میں ہے (ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب)(الرعد۸۲)سن لو اللہ کی یاد سے ہی دل سکون پاتے ہیں،ہم نے صرف گمان پر دنیا کے تمام نسخوں کو آزمایا، ہر طبیب کے در پر گئے، ہر جگہ پر اس کو تلا ش کیا،ایک بار اس حتمی اور یقینی نسخہ کو بھی آزمائیں جس کے بعد نہ کوئی پریشانی ہوگی اور نہ ٹینشن،بس ایک مرتبہ اپنانے کی ضرورت ہے اس کے بعد راحت ہی راحت ہے۔
(مضمون نگار مولانا محمد حسن غانم اکرمیؔ ندوی ، مدرسہ خیر العلوم بھٹکل کےمہتمم ہیں)