یہ کون بچھا رہا ہے نفرت کا جال، کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے؟۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور
"وقت کے آئینے میں سیاست کی حقیقت کھلتی ہے، فرقہ واریت کا کھیل صرف وقتی فائدہ دیتا ہے، مگر سماج کو ہمیشہ کے لیے تقسیم کر دیتا ہے۔"
کرناٹک، جو کبھی ہندوستان کی ثقافتی تنوع، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک جیتی جاگتی مثال سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسی صورت حال کا شکار ہے جو نہ صرف اس کی تاریخی وراثت پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ اس کے معاشرتی و سیاسی استحکام کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ یہ سوال کہ "کیا کرناٹک فرقہ وارانہ سیاست کی تجربہ گاہ بن چکا ہے؟" نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، ثقافتی اور آئینی لحاظ سے بھی ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔کرناٹک کی سیاست میں حالیہ تبدیلیاں ایک نیا سوال پیدا کر رہی ہیں کہ کیا ریاست کی سیاست اب مذہب اور فرقے کے درمیان تقسیم ہو چکی ہے؟ کیا اس ریاست نے اپنی تاریخی ہم آہنگی کو کھو دیا ہے؟ مذہبی رہنماؤں کے حالیہ متنازعہ بیانات، وقف املاک کے تنازعات، اور سیاسی جماعتوں کی چالاکیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ریاست میں فرقہ وارانہ سیاست ایک منظم حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے، جو نہ صرف سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہو رہی ہے بلکہ اس کے ذریعے سماجی تانے بانے کو بھی چھنا جا رہا ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ سیاسی کھیل ریاست کے امن و سکون کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
وقف املاک کا تنازعہ: ایک سیاسی ہتھیار: کرناٹک وقف بورڈ، جو مسلمانوں کی مذہبی، تعلیمی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے اور فلاحی مقاصد کے لیے قائم کیا گیا تھا، آج سیاسی جماعتوں کے درمیان تنازعات اور الزامات کا مرکز بن چکا ہے۔ وقف املاک، جو مسلمانوں کے لیے ایک امانت سمجھی جاتی ہیں، اب سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ ایک طرف بی جے پی ہے، جو وقف کے معاملات کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں شامل کر کے اکثریتی فرقے کے ووٹوں کو اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے، تو دوسری طرف کانگریس ہے جو مسلم کمیونٹی کے ووٹوں کا حصول تو چاہتی ہے لیکن عملی طور پر مسلمانوں کے مسائل کو اہمیت دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ حالیہ واقعات، اس بات کا غماز ہیں کہ وقف املاک کے تنازعات کا براہ راست اثر مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی پر پڑ رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقف بورڈ کے معاملات اب صرف انتظامی نہیں، بلکہ سیاسی نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔
مذہبی بیانات: خطرناک رجحان:کرناٹک کی سیاست میں حالیہ دنوں میں مذہبی رہنماؤں کے متنازعہ بیانات نے نئی سطح پر فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دی ہے۔ پیجاور مٹھ کے سوامی وشوا پرسنا کا یہ بیان کہ "ہندو راشٹر" کا قیام ضروری ہے، نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف تھا بلکہ ریاستی سیاست میں ایک نئی بحث کا آغاز بھی تھا۔ ان کے اس بیان کو بی جے پی نے سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کیا، جس پر سیاسی جماعتوں نے شدید اعتراض کیا۔ اسی طرح، وشوا وکلیگا مٹھ کے سوامی کمارا چندر شیکھرناتھ کا یہ بیان کہ "مسلمانوں کے ووٹ ہندوؤں کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں"، ایک اور متنازعہ نقطہ بن چکا ہے۔ ان پر درج ایف آئی آر نے بھی ریاست میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا، اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے رہنماؤں تک نے بھی اس مقدمے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ یہ بیانات فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینے کا باعث بن رہے ہیں، اور ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔
مسلم قیادت کی ناکامی: ایک سنگین مسئلہ: کرناٹک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کی سب سے بڑی وجہ ایک مضبوط اور متحد قیادت کا فقدان ہے۔ وقف بورڈ کے تنازعات ہوں یا مذہبی بیانات کے ذریعے پیدا ہونے والی کشیدگی، مسلمانوں کے پاس اپنی آواز بلند کرنے کے لیے کوئی موثر پلیٹ فارم موجود نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے مسلمانوں کے مسائل کو محض انتخابی حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ریاست کی سیاسی اور سماجی فضا کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ مسلمانوں کی قیادت میں مضبوطی اور اتحاد کی کمی کا فائدہ سیاسی جماعتیں اٹھا رہی ہیں جو ان کے مسائل کو صرف اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے مسائل کو انتخابی حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، لیکن ان کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتیں۔ یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک ہے، کیونکہ ان کے حقوق اور مسائل سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
کرناٹک کا بدلتا ہوا چہرہ: کرناٹک میں حالیہ واقعات، وقف بورڈ کے تنازعات، اور مذہبی بیانات نے ریاست کی سیاست میں ایک نیا رخ متعین کیا ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست، جو کبھی پس منظر میں چھپی رہتی تھی، اب کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس جیسی سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں، لیکن ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ یہ صورت حال نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ ریاست کی مجموعی سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست کی بڑھتی ہوئی لہر، جو محض سیاسی فوائد کے لیے استعمال ہو رہی ہے، ریاست کے امن اور بھائی چارے کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
مسلمانوں کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل: کرناٹک کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کو منظم کریں اور اپنی قیادت کو مضبوط کریں۔ وقف بورڈ کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ لڑنا ہو یا فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف آواز بلند کرنا ہو، مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خود آگے آنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اپنی اجتماعی طاقت کو بروئے کار لانا ہوگا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک متحد حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کی چالبازیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک مضبوط اور باصلاحیت قیادت ہو جو ریاستی سطح پر ان کے مسائل کا حل تلاش کرے۔ ایک متحد حکمت عملی ہی مسلمانوں کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہے، اور یہی ان کی سیاسی طاقت کا مظہر بن سکتی ہے۔ کرناٹک میں فرقہ وارانہ سیاست کا فروغ ریاست کے روشن مستقبل کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ وقت ہے کہ مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط اور متحد حکمت عملی اپنائیں۔ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملیوں سے متاثر ہونے کے بجائے اپنی آواز کو مضبوط کریں اور اپنے مسائل کا حل خود تلاش کریں۔ مسلمانوں کی قیادت میں اتحاد اور قوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کر سکیں بلکہ ریاست کی سیاست میں اپنا مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ کرناٹک کو فرقہ وارانہ سیاست کے اکھاڑے میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام کمیونٹیز مل کر کام کریں۔ ایک ایسا سیاسی اور سماجی نظام ترتیب دیا جائے جو تمام طبقات کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے۔ کرناٹک میں فرقہ وارانہ سیاست کا فروغ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ریاست کی سماجی ہم آہنگی کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ مسلمان اپنی آواز کو مضبوط کریں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں۔
"چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر،
کہ زخم رکھتا ہوں میں، پھولوں کے بیوپار کا۔"
(مضمون نگار کرناٹک کے معروف صحافی وتجزیہ نگار ہیں)