بھٹکل 6؍اگست (ایس او نیوز) اگرضلع شمالی کینرا میں بیرونی ممالک کے رہنے و الے غیر رہائشی ہندوستانیوں کی بات کریں تو ان میں بھٹکل کے شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اس لئے بیرونی ممالک کی شہری ترقیات اور وہاں کے صفائی ستھرائی کے نظام کو دیکھنے کے بعد وطن لو ٹ کر یہاں کے حالات سے موازنہ کرنا اور یہاں کی انتظامیہ کی بد حالی دیکھ کر پریشان ہوجانا فطری بات ہے۔
پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال: بھٹکل میں تعمیراتی سرگرمیوں کی اگر بات کی جائے تو بیرونی ممالک کے خوبصورت نقشوں اور ماڈلس کو سامنے رکھ کر یہاں سر اٹھانے والی عمارتوں کا دلکش نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔لیکن اگر شہر کی صفائی اور کچرا نکاسی کے پہلو سے دیکھیں اور جائزہ لیں تو پھر مایوسی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔شہر میں پلاسٹک پر پابندی کے خلاف اعلانات اور چیخ و پکار تو بار بار سنی جاتی ہے لیکن عملاً اس پر پابندی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ٹنوں کے حساب سے پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال بے روک ٹوک جاری ہے۔اور جہاں دیکھو وہاں کچرا پھینکنے کے لئے انہی پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ہورہا ہے۔دراصل پلاسٹک کی تھیلیاں تیار کرنے والے کارخانے معمول کے مطابق جب اپنا مال مارکیٹ میں سپلائی کررہے ہیں تو پھر ظاہر بات ہے کہ اس کا استعمال بھی عوام کریں گے ہی۔ایسی صورت میں پابندی کے نتائج کیا نکلیں گے اس پر سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔
کچرا نکاسی کے مسائل: اب اگر کچرا نکاسی کے مسئلے کاجائزہ لیں توسوائے بھٹکل ٹاؤن میونسپالٹی کے پورے بھٹکل تعلقہ میں کچرا نکاسی ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے، اور اس تعلق سے کوئی عملی سوچ اور فکر بھی نہیں ہے۔جالی اور ہیبلے پنچایت میں کچرانکاسی اور اسے ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول انتظام ہے ہی نہیں۔ ان علاقوں سے عوام کچرا تھیلیوں میں بھر کر لاتے ہیں اور کسی سنسان سڑک پر یاکسی کونے اور موڑ پر خاموشی کے ساتھ پھینک کر رفو چکر ہوجاتے ہیں۔اس طرح سڑک کنارے لگنے والے کچرے کے ڈھیر لاوارث جانوروں اور آورہ کتوں کے لئے غذا فراہم کرنے کے مراکز بن جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان سڑکوں اور راستوں پر سے گزرنا عوام کے لئے انتہائی دشوار کن مسئلہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عوامی بیداری مہم: کچھ عرصے پہلے بیرونی ممالک سے چھٹیوں میں بھٹکل آنے والے غیر رہائشی ہندوستانیوں نے اپنے ہاتھوں میں دستانے پہن کرسڑکوں کے کنارے لگے ہوئے ڈھیر خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے کی مہم چلائی تھی تاکہ عوام کے اندر اپنے علاقوں کو صاف ستھرا رکھنے کا شعور بیدار ہو اور دوسری طرف گرام پنچایت کے افسران کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوجائے۔ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق چند ہی دنوں بعد پھر وہی صورتحال پیدا ہوگئی اور ان علاقوں میں دوبارہ کچر اپھینکنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
عوام کے بے حسی: حالانکہ ٹاؤن میونسپالٹی کے حدود میں کچرا نکاسی اور اس کو ٹھکانے کا انتظام کیا گیا ہے اور یہ سسٹم بہتر انداز میں کام کر رہا ہے۔لیکن یہاں اب بھی عوام کے اندر صفائی کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کا احساس پوری طرح نہیں جاگا ہے۔ بلدیہ حدود میں بھی لوگوں کو سڑکوں کے کنارے پلاسٹک کی تھیلیوں میں کچرا یہاں وہاں پھینکتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔اس کے علاوہ جو کچرا نکاسی مرکز میں جمع کیا جاتا ہے اسے کھاد بنانے کے لئے بھی استعمال نہیں کیا جاتاہے۔ گیلا او ر سوکھا کچرا الگ کیے بغیر یونہی ڈھیر لگادی جاتی ہے۔ان سب مسائل کا حل کیا ہے اس طرف کوئی بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دے رہا ہے اس لئے پتہ نہیں کہ عوام کو اس سے چھٹکارہ کب نصیب ہوگا۔
بھٹکل ٹاؤن میونسپالٹی کی سینئر ہیلتھ انسپکٹر سوجیا سومن نے بتایا کہ عوام کے اندر سوکھا کچرا اور گیلا کچرا الگ الگ کرکے دینے کے بارے میں کوئی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ اس طرح کچرا الگ کرکے دینے سے اس کچرے کو کھاد میں تبدیل کرنے کاکام کیا جاسکتا ہے۔لیکن سب کچرا یک ساتھ ملاکر لوگ پھینک دیتے ہیں جس سے مشکل پیش آرہی ہے۔
گرام پنچایتوں کی ناکامی: بھٹکل تعلقہ کے گرام پنچایتوں کے تعلق سے بات کریں تودوایک گرام پنچایتوں کو چھوڑکر بقیہ تمام علاقوں میں کہیں بھی کچرا ٹھکانے لگانے کا مرکز موجود نہیں ہے۔ہیبلے پنچایت علاقے کی گندگی کے بارے میں توکچھ کہنا ہی بیکار ہے۔ عوام کے اندر صفائی ستھرائی اور ماحولیاتی آلودگی کے تعلق سے بے پروائی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے گھروں کا کچرا پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھر یا تو سڑکوں کے کنارے پھینک دیتے ہیں یا پھر پاس کے ندی نالوں میں اسے بہا دیتے ہیں۔اس پورا شہر کا شہر ہے کچرے کے ڈھیر میں بدل جاتا ہے۔اور آنے والے دنوں میں درپیش آلودگی اور بیماریوں کے خطرات کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے۔
سڑک کنارے استنجا خانے: شہر کو ایک طرف کچرا اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف سڑک کنارے پیشاب خانے دوسرا اہم مسئلہ ہیں۔یہاں لاکھوں روپے کی لاگت سے تحصیلدار آفس کی عمارت سے متصل ایک عام استنجا خانہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے، مگر اس کا افتتاح آج تک نہیں کیا گیا ہے اور وہ یونہی بند پڑا ہوا ہے۔بھٹکل بس اسٹانڈ کی عمارت پچھلے دنوں گرجانے کے بعد وہاں پر موجود استنجا خانہ استعمال کرنے کی سہولت بھی عوام کے لئے نہیں رہی ہے۔ شہر میں آنے والے مسافر بسوں سے اترتے ہی ادھر اُدھر پیشاب خانے تلاش کرتے ہیں اور پھر مجبور ہوکر سڑک کنارے ہی اپنا کام انجام دے کر چلتے بنتے ہیں۔
اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کے راہ پر گامزن شہر بھٹکل کی پیشانی پرکچرا نکاسی اور گندگی کے مسائل ایک بد نما داغ بن کر رہ گئے ہیں۔