قوم کا استحصال ۔۔ لیڈروں کا کمال ۔۔۔۔۔ از قلم : مدثر احمد شیموگہ
گذشتہ دنوں کرناٹک حکومت نےہبلی میں توہین رسالت ﷺ کے تعلق سے ہونے والے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام جھیل رہے کئی نوجوانوں کے مقدموں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا ، اس فیصلے کو ریاستی حکومت نے ایسے ہی نہیں کیا بلکہ ہبلی کی انجمن کمیٹی کی جانب سے مسلسل کی جانے والی جدوجہد اس میں اہم رہی ہے ۔ جس وقت سے ہبلی کے نوجوان ان مقدموں کے تحت جیلوں کی سزا کاٹ رہے تھے اس وقت سے وہاں کی انجمن مسلسل ضلعی کورٹ سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی نوجوانوں کو رہا کروانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے اور ان نوجوانوں کی خاطر وقت اور مال کی قربانی دے کر یہ مثال قائم کی کہ انجمن کے ذمہ داروں میں ملّت کے تئیں جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہواہے ۔ وہیں دوسری جانب سے ہبلی فسادات سے قبل بنگلور کے ڈی جی ہلّی اور کے جی ہلّی میں بھی توہین رسالت کے معاملے میں ہونے والے تشدد کے بعد سینکڑوں نوجوانوں کو ین آئی اے نے یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا اور اس ایکٹ میں گرفتار ہونے والے نوجوان آج بھی اپنی رہائی کے منتظر ہیں اور وہ اس بات کاانتظارکررہے کہ قوم انکی رہائی کے لئے کوشش کریگی۔ قوم کے سیاسی ، سماجی اور مذہبی رہنماء انکے لئے مددگار ثابت ہونگے ۔ لیکن جہاں تک ریاست کی مرکزی مسلم قیادت ہے وہ اس وقت اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرنے کے لئے شکتی پردرشن کررہے ہیں اور ڈی جے ہلّی ، کے جےہلّی ہو یا پھر مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ البتہ مختلف عنوانات کے تحت جلسوں کا انعقاد کرتے ہوئے اپنے آپ کو صاحب اقتدار کے سامنے مضبوط مسلم لیڈران کے طورپر پیش کررہے ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ شاہ بانو کیس کے دوران مولانا عبیداللہ عاظمی نے اس وقت کی حکومت کو للکارتے ہوئے شاہ بانو کیس پر گائوں سے لے کر دہلی تک اپنا جلوہ دکھا یا تھا اور مسلمانوں کی آواز بن کر اپنے آپ کو پیش کیا تھا، شاہ بانوکا مسئلہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہونے کے بعد عبید اللہ عاظمی کو بھی پارلیمنٹ پہنچنے کا راستہ صاف ہوگیا تھا ، ممکن ہے کہ آج کل جو مختلف تحفظات کے لئے جلسے ہورہے ہیں ان جلسوں کے ذریعے بھی کچھ لوگ اسمبلی یا پارلیمنٹ پہنچنے کی تیاری کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمانوں کے کندھوں پر قائدین کب تک اپنے مفادات کی ڈولیاں لے کر آگے بڑھتے رہیں گے ؟۔ کیا مسلمانوں کی صحیح قیادت کا وقت ابھی نہیں آیا ؟۔ کیا عام مسلمانوں کو یوں ہی اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا جاتارہے گا ؟۔ آخر کیوں مسلمانوں کے مذہبی ، ملّی اور سماجی قائدین مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں ؟۔ جب ان لوگوں کو آئینہ دکھایا جاتاہے تو وہ بُرا مان لیتے ہیں اورحق کو حق ماننے سے انکار کردیتے ہیں ۔حق کو براماننے کے بجائے حق کے لئے کام کریں گے تو اس سے امّت کا فائدہ ضرورہوگا۔
(مضمون نگار مدثراحمد، شموگہ سے جاری روزنامہ آج کا انقلاب کے ایڈیٹر ہیں)