ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ
سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے دفاتر کو مہر بند کردیا۔ دہلی پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور سونیا کی گرفتاری کا بھی اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ اُدھر مہاراشٹرا میں ادھو ٹھاکرے کے دست راست سنجے راؤت کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ پی ایم ایل اے قانون اور ای ڈی کے اختیارات پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر 17 اپوزیشن جماعتوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لیے بے حد خطر ناک قرار دیا۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے کئی سابق ججس نے بھی اس فیصلے سے غلط نظیر قائم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ۔
ملک کا ہر ایماندار شخص چاہتا ہے کہ غلط کام کرنے والے کو یقیناً سزا ہو، اور مرکزی ا یجنسیوں کو بغیر کسی امتیاز کے ہر مشکوک معاملے میں یکساں سرعت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہورہا ہے اور انصاف پسند حلقوں کی بے چینی کی وجہ بھی یہی ہے۔ مثلاً حال ہی میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے خاندان کے تعلق سے کچھ ایسے انکشافات ہوئے جو جامع تحقیقات کے متقاضی ہیں مگر وزیر موصوفہ نے از خود معاملے کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرنے کی بجائے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف ہی ہتک عزت کا مقدمہ د ائر کر دیا اور معزز عدالت کو بھی ’’بادی النظر ‘‘ میں الزامات میں کوئی سچائی نظر نہیں آئی ! اور اس نے الزامات عائد کرنے والوں کو اپنے ٹوئٹس حذف کرنے کی ہدایت دے ڈالی۔ حالانکہ اس فیصلے کے بعد ملک کے معروف انگریزی اخبار ’’ دی انڈین ایکسپرس ‘‘ نے اس پورے معالے پر ایک تحقیقی رپورٹ شائع کر کے گوا کے متنازعہ کیفے اور اس کی تجارتی اراضی میں اسمرتی ایرانی کے خاندان کی سرمایہ کاری کا انکشاف کیا ہے۔ یعنی یہ ” بادی النظر‘‘ میں منی لانڈرنگ کا معاملہ نظر آ رہا ہے اور ای ڈی کے لیے ایک طاقتور کیس ہوسکتا ہے، مگر مرکزی ایجنسی جو اپوزیشن قائدین کے ہر معاملے میں منی لانڈڑنگ کی بو سونگھ لیتی ہے، اسمرتی ایرانی کے کیس میں ایسا لگتا ہے کہ اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔
ایرانی ہی نہیں بلکہ گزشتہ دنوں کرناٹک کے ایک کنٹراکٹر کی خو دکشی کا پس منظر بھی ای ڈی کے لیے طاقتور کیس ہوسکتا ہے، کیوں کہ اس کنٹرا کٹر نے اپنے خود کشی نوٹ میں ریاستی وزیر ایشور پا پر 40 فیصد کمیشن طلب کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ قبل ازیں ریاست کے ٹھیکیداروں کی انجمن نے باضابطہ وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب تحریر کر کے کرنا تک میں ہر کام کے لیے 40 فیصد کمیشن طلب کیے جانے کی شکایت کی تھی ، یعنی ریاست کے وزراء عہدیداروں اور سرکاری ملازمین کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے قوی امکانات ہیں، مگر ای ڈی نے آج تک بھی اس معاملے میں کوئی کیس درج نہیں کیا۔ ’’اپنوں ‘‘ کو بچانے اور اپوزیشن کو پھنسانے کا چلن ملک کو بد عنوانی جیسی خرابیوں اور برائیوں سے پاک کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
حال ہی میں جھار کھنڈ کے 3 کانگریسی ارکان اسمبلی کو 49 لاکھ روپے نقد رقم کے ساتھ مغربی بنگال پولیس نے گرفتار کرلیا۔ بتا یا یا جا رہا ہے کہ یہ رقم بی جے پی کے ’’آ پر یشن لوٹس ‘‘ کا حصہ ہے جس کے ذر یعہ وہ جھارکھنڈ کی ہیمنت سورین زیر قیادت مخلو ط حکومت کو بے دخل کر نا چاہتی ہے۔ یہ بھی ای ڈی کے لیے موزوں کیس ہے، کیوں کہ اس میں رقومات کی منتقلی کھلے عام ہو ئی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سفید دھن تو ہو نہیں سکتا لیکن ای ڈی ابھی تک بے حس وحرکت بنی ہوئی ہے۔ اس کے برعکس جب معاملے کی تحقیقات کرنے والی سی آئی ڈی کیس کے سلسلے میں دہلی اور گو ہائی پہنچی تو مقامی پولیس نے انہیں فرائض کی انجام دی سے روک دیا اور ایسا پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ ہیں، قبل ازیں بی جے پی کے متنازعہ لیڈر تجند پال سنگھ بگا کو جب پنجاب پولیس گرفتار کر کے لے جاری تھی تو راستے میں ہریانہ پولیس نے انہیں روک لیا اور بگا کو دہلی پولیس کے حوالے کر دیا۔
ایک اور واقعہ میں ایک پر و پیگنڈا نیوز چینل کے اینکر کو یو پی پولیس ، چھتیس گڑھ پولیس کے چنگل سے بچا کر اپنے ساتھ لے گئی ، گستا خ ملعونہ نپور شرما کے معاملے میں بھی دوہرا معیار اختیار کیا گیا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والی کو گرفتار نہیں کیا گیا اور جرم کا پردہ فاش کرنے والے ( زبیر ) کو جیل کی ہوا کھلائی گئی ۔ سنگین جرائم کے معاملے میں ہی دو ہرا معیار اختیار نہیں کیا جار ہا ہے بلکہ مظلومین سے ہمدردی اور ان کی اشک شوئی کے معاملے میں بھی گھٹیا سیاست کی جارہی ہے۔
حال ہی میں کرنا ٹک میں یکے بعد دیگر ے تین قتل ہوئے مگر ریاست کے وز یر اعلیٰ بومئی نے صرف مقتول ہندو نو جوان کے لواحقین سے ملاقات کر کے انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ فراہم کیا جبکہ اس علاقہ میں دیگر دو مقتول مسلم نو جوانوں کے لواحقین بھی موجود تھے مگر چیف منسٹر نے ان کے غمزدہ خاندانوں کو پرسہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جبکہ بومئی کسی ایک فرقہ کے نہیں بلکہ ریاست کے تمام فرقوں اور طبقات کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان ہلاکتوں کی تحقیقات میں بھی دوہرا معیار اختیار کیا گیا۔ ہندو کارکن کے قتل کی تحقیقات این آئی اے کے حوالے کی گئی جبکہ مسلم نو جوانوں کے قتل کی تحقیقات مقامی پولیس سے کروائی جاری ہے۔ یہ تعصب ، کھلی جانبداری اور ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک میں انصاف و جمہوریت کے لیے بے حد خطر ناک ہے۔