دہلی، مسلم تنظیمیں او ردہشت گردی از:شکیل رشید
دہلی ان دنوں ڈینگی وائرس اور ڈینگو کی چپیٹ میں ہے مگراس کی رفتار دھیمی نہیں پڑ ی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا وہی اژدہام ہے جسے کم کرنے کے لئے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے Odd & Evenکا سلسلہ شروع کیا تھا۔ لوگوں کی دوڑ بھاگ بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ عام دنوں میں رہا کرتی ہے۔ ممبئی کی طرح دہلی شہر بھی رات میں جاگتا ہے مگر یہ راتوں کاجاگنا سب کونظر نہیں آتا ۔ ممبئی کی طرح رات کی ز ندگی وہاں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے کھلی اور عیاں نہیں اوجھل رہتی ہے۔ یہ ممبئی اوردہلی کا سب سے بڑا فرق ہے۔ ممبئی شہر اپنے مزاج اور اپنے طور طریق میں کھلا ڈھلا اور اوپن ہے جبکہ دہلی شہرکھلاڈھلااوراوپن لگنے کے باوجود بھی نہ کھلا ڈھلا ہے او رنہ ہی اوپن ہے۔ میں جب بھی دہلی گیا ہوں یہ اندازہ کیا ہے کہ چونکہ وہ شہر اقتدار کا مرکز ہے لہذا وہاں کی فضا پر اقتدار کی ایک نہ نظر آنے والی مگر واضح طو رپر محسوس کی جانے والی لہر چھائی رہتی ہے۔دہلی ڈینگو کی طرح اِن دنوں سیاسی ہلچل اور سیاسی سرگرمیوں کی چپیٹ میں بھی ہے، اڑی پر پاکستانی دہشت گردوں کے حملے نے دہلی کی سیاسی فضا کو گرم کردیا ہے۔ مسلم محلوں میں بھی اس کی گرمی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مسلم تنظیمیں اورجماعتیں اور مسلم قائدین پاکستان اور نواز شریف کی مذمت میں سنگھ کی تنظیموں اور بھاجپائی ورکروں پر سبقت مار رہے ہیں لیکن ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ قوم پرستی کو جتلانے کے اس موسم میں وہ مسلم جماعتیں اور تنظیمیں جو واقعی مسلمانوں کے مسائل کو لے کر متفکر ہیں، اپنی توجہ کو مسائل سے ہٹانہیں رہی ہیں۔ جنتر منترپرمسلم تنظیموں اور جماعتوں کا ، جن میں جماعت اسلامی ہند اور جمعیۃ علمائے ہند کے علاوہ شیعہ اور سنی جماعتیں او رتنظیمیں بھی شامل تھیں۔ ایک زبردست مظاہرہ ہوا۔ یہ مظاہرہ اوراحتجاج مسلمانوں اور دلتوں پر مظالم کے خلاف تھا۔ جم کر مودی سرکار کو یہ پیغام پہنچایاگیاکہ مظالم برداشت نہیں کئے جائیں گے لہٰذا ان پر روک لگائی جائے۔ یہاں ایک بات مجھے یہ کہنی ہے کہ وہ عناصر جو اُڑی میں پاکستانی دہشت گردوں کے حملے میں اٹھارہ جوانوں کی شہادت پر غمزدہ ہیں، چراغ پا ہیں اور اس کے لئے پاکستان پر حملے کو جائز قرار دے رہے ہیں جوسارا زور لگا رہے ہیں کہ بس جنگ چھیڑ ہی دی جائے ، جیسے کہ بھاجپائی سبرامنیم سوامی ، جوکہتے ہیں بھلے ہی ایٹمی جنگ کیوں نہ شروع ہوجائے پاکستان پر حملہ ضروری ہے، وہ عناصر کسی مسلم یا دلت ہندوستانی شہری کے پیٹے جانے، ذلیل کئے جانے یامارے جانے پر کیوں غمزدہ نہیں ہوتے، کیوں چراغ پا ہوکر ظالموں کی ہر ممکنہ طریقے سے سرکوبی کا نعرہ نہیں لگاتے؟۔کیاصرف اس لئے کہ یہ مسلم اور دلت ہیں؟۔ کیا کسی ہندوستانی شہری کا مسلمان یا دلت ہونا اسے ہندوستانی قومیت سے خارج کردیتا ہے؟۔ اور کیا مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اُڑی کے شہید جوانوں کے ساتھ کئے گئے دہشت گرد وں کے سلوک سے کچھ الگ قسم کا ہوتا ہے؟ ۔مذکورہ سوالوں کی اِن دنوں دہلی کی مسلم تنظیموں اور جماعتوں میں بھی بازگشت سنائی دیتی ہے۔چاہئے کہ یہ سوال سارے ملک میں پوچھے جائیں۔ ملک کو صرف پاکستانی دہشت گردوں کا ہی سامنانہیں ہے ملک کوان دہشت گردوں کا بھی سامنا ہے جو اپنے رویے، فطرت اور نظریے میں خالص یرقانی ہیں۔۔۔جواب دونوں کودیاجاناچاہئے ۔جنگ کی صورت میں نہیں، ایسی کارروائی کی صورت میں کہ یہ دونوں دہشت گردی بھول جائیں۔