سپریم کورٹ سے ملی راحت کے بعد دہلی کے وزیراعلیٰ تہاڑ جیل سے آئے باہر؛ ای ڈی کو کرنا پڑا سخت ہزیمت کا سامنا؛ صدی کے بدترین ڈکٹیٹرشپ سے مقابلہ کرنے پر کجریوال نے دیا زور

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 11th May 2024, 1:37 PM | ملکی خبریں |

نئی دہلی 11 مئی (ایس او نیوز): دہلی کے وزیراعلیٰ  اروند کیجریوال کو جمعہ کی شام دہلی کی تہاڑ جیل سے رہا کیا گیا - مبینہ شراب پالیسی گھوٹالے سے منسلک بدعنوانی کے الزام میں جیل میں بند رہنے کے 50 دن بعد اور سپریم کورٹ کی جانب سے یکم جون تک ضمانت دینے کے چند گھنٹوں بعد۔ عام آدمی پارٹی کے رہنما کی رہائی کا مطلب ہے کہ وہ اب AAP اور انڈیا بلاک کے لیے جاری انتخابات میں مہم چلا سکتے ہیں، جس میں دہلی کی سات سیٹوں پر 25 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔

کجریوال جیسے ہی تہاڑ جیل کے گیٹ نمبر 4 سے باہر نکلے، کیجریوال کا جھنڈا لہرانے اور نعرے لگانے والے AAP کارکنوں کے ہجوم کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ سنیتا کیجریوال اور آتشی اور سوربھ بھردواج جیسے سینئر لیڈروں نے استقبال کیا۔ مسٹر بھردواج نے کہا کہ اروند کیجریوال کی رہائی  انڈیا  بلاک کے حق میں "گیم چینجر"  ثابت ہوگی۔

ای ڈی کو کرنا پڑا سخت ہزیمت کا سامنا:   کجریوال کو گرفتار کرنے والی ای ڈی کو اُس وقت سپریم کورٹ میں  سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب اس کی شدید مخالفت کے باوجود دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو موجودہ پارلیمانی انتخابات کی مہم میں حصہ لینے کیلئے عبوری ضمانت دے دی گئی۔سپریم کورٹ نے کیجریوال کو یکم جون تک عبوری ضمانت دیتے ہوئے ۲؍جون کو خودسپردگی کی ہدایت دی ہے۔

پارٹی کارکنوں کا شاندار جشن :  عبوری ضمانت ملنے کے بعد عام آدمی پارٹی کے کارکنوں  نے جیل کے باہر جشن منایا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ شام سے قبل ہی سپریم کورٹ کا حکم تہاڑ جیل انتظامیہ کو پہنچادیا گیا تھا جس کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ جمعہ کی شام کسی بھی وقت کیجریوال کی رہائی عمل میں آجائے گی۔ شام تقریباً ساڑھے۶؍ بجے جیسے ہی کیجریوال  تہاڑ جیل کے گیٹ نمبر ۴؍ سے باہر نکلے اور پھر گیٹ نمبر ۳؍کی طرف بڑھے جہاں  پارٹی لیڈران اور کارکنان بڑی تعداد میں ان کا استقبال کرنے کے لیے جمع تھے۔تہاڑ جیل کے گیٹ سے باہر نکلے پارٹی کارکنوں اور دیگر لیڈران نے ان کا زبردست استقبال کیا۔ کیجریوال اور عام آدمی پارٹی زندہ باد کے نعروں سےجہاں جیل کے آس پاس علاقوں کی فضا گونج رہی تھی وہیں کارکنوں نے زبردست آتش بازی کرتے ہوئے وسطی دہلی میں دیوالی کا سماں باندھ دیا تھا ۔ جیل  سے نکلنے کے بعد اروند کیجریوال انتہائی پُرجوش دکھائی دیے اور زوردار انداز میں کہا کہ ’’میں نے کہا تھا میں جلدی آؤں گا، آ گیا۔ اب  ہم سب کو مل کر تاناشاہی سے ملک کو بچانا ہے۔ میں پوری طاقت سے لڑ رہا ہوں اور تاناشاہی سے جدوجہد کر رہا ہوں۔ ۱۴۰؍ کروڑ لوگوں کو بھی تاناشاہی سے لڑنا پڑے گا۔‘‘ کیجریوال نے اعلان کیا کہ وہ سنیچر کو  پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کریں گے۔

اروندکیجریوال کا خطاب :   جیل سے باہر آنے کے بعد کیجریوال نے کار پر چڑھ کر اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کیا اور  مستقبل کالائحہ عمل بتایا۔کیجریوال نےکارکنوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’آپ لوگوں کے درمیان واپس آ کر اچھا لگ رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ سپریم کورٹ کے ججوںکا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے پھنسایا گیا ہے اس لئے ضمانت پر رہائی ضروری ہے۔سپریم کورٹ کا شکریہ کہ اب ہم جمہوریت کو بچانے کی جنگ زیادہ شدت کے ساتھ لڑیں گے۔ انہوں نے دہرایا کہ  عام آدمی پارٹی  ایک  پارٹی نہیں بلکہ ایک سوچ ہے اوراب وہ اس سوچ کو مزید تیزی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ اس صدی کی بدترین ڈکٹیٹر شپ سے ہے جس سے ہمیں ثابت قدم رہ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔

سپریم کورٹ نے کیا کہا ؟:   اس سے قبل جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بنچ نےعبوری ضمانت کو منظوری دیتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ کیجریوال کا معاملہ زیر سماعت ہے اور گرفتاری کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات زیر غور ہیں،ایسے میں  ۱۸؍ ویں لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر اس سلسلہ میں زیادہ جامع اورفراخدلانہ  نظریہ  اپنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ الیکشن ۵؍ سال میں ایک ہی بار آتے ہیں۔اروند کیجریوال  دہلی کے وزیر اعلیٰ اور ایک قومی پارٹی  کے  لیڈر ہیں اور ہمیں اسی کے مطابق فیصلہ کرنا ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں لیکن انہیں قصوروارنہیں ٹھہرایا گیا۔ ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں ہے اور نہ وہ معاشرے کے لئے خطرہ ہیں ، ایسے میں انہیں ضمانت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کیجریوال کو سپریم کورٹ نے ضمانت تو دے دی ہے لیکن ان پر کچھ سخت شرائط بھی عائد کردی ہیں۔بنچ نے اروند کیجریوال کو ۵۰؍ ہزار کی ضمانت اوراتنی ہی رقم  کے ضمانتی بانڈ پر رہائی کے احکامات جاری کئے۔  ضمانت کی شرائط میں یہ شامل کیا گیا کہ وہ نہ تو وہ اپنے دفتر اور نہ ہی دہلی سیکریٹریٹ کا دورہ کریں گے۔ضمانت کی شرائط میں مزید کہا گیا کہ وہ اپنے اس بیان کے پابند ہوں گے کہ وہ سرکاری فائلوں پر دستخط نہیں کریں گے جب تک کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری حاصل کرنے کے  لئےایسا کرنا ضروری نہ ہو۔وہ موجودہ مقدمہ  میں اپنے کردار کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ وہ کسی بھی گواہ کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے یامقدمہ سے منسلک کسی بھی سرکاری فائل تک رسائی حاصل نہیں کریں گے۔

عدالت نےاستغاثہ کی اس دلیل کو مستردکردیا کہ کیجریوال کو عبوری ضمانت ملک کے عام شہریوں کے مقابلے میں سیاستدانوں کو فائدہ مند پوزیشن میں رکھنے کے مترادف ہوگی۔بنچ نے اپنے مشاہدہ میں کہا کہ ضمانت  اوررہائی کے سوال کا جائزہ لیتے ہوئے عدالتیں ہمیشہ زیربحث شخص اور اس کے آس پاس کے حالات سے وابستہ خصوصیات کو مدنظر رکھتی ہیں۔ بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے ذریعہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کا موازنہ ایک کسان اور تاجر سے کرنے سے بھی عدم اتفاق کیا۔بنچ نے کہا کہ موجودہ صورتحال کا فصل کی کٹائی یا تجارتی امور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔کیجریوال کو عبوری راحت کے  لئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت دینا بھی مناسب نہیں کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

بنچ نے کہا کہ اس معاملہ میں ایک مداخلت کرنے والا عنصرموجود ہے جس نے ہمیں موجودہ حکم پر غور کرنے اور اسے منظور کرنے پر آمادہ کیااور یہ ۱۸؍ویں لوک سبھا کے عام انتخابات ہیں۔چونکہ اپیل ہمارے سامنے زیر التوا ہے اس لئےہم نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارے لئے مناسب ہوگاکہ انہیں کہیں اور جانے کی ہدایت دیں۔

خیال رہے کہ دہلی آبکاری پالیسی معاملہ میں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتارکیجریوال ۲۱؍ مارچ سے ہی حراست میں تھے اور اس وقت تہاڑ جیل میں بند تھے۔انہوں نے سپریم کورٹ میں ای ڈی کے ذریعہ اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا،تاہم بعد میں عبوری ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔ گزشتہ روزای ڈی نے کیجریوال کی ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے نیا حلف نامہ دائر کیاتھا۔ای ڈی نے کیجریوال کو عبوری ضمانت دینےکی عدالتی تجویزکی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ انتخابی مہم میں حصہ لینا نہ تو بنیادی ، نہ  آئینی اور نہ ہی  قانونی حق ہے۔اس میں مزید کہا گیاتھا کہ کجریوال کے ساتھ کوئی خاص برتاؤ  نہ کیا جائے کیونکہ کسی بھی سیاسی  لیڈر کو آج تک انتخابی مہم چلانے کیلئے عبوری ضمانت نہیں دی گئی۔

ایک نظر اس پر بھی

ہماچل پردیش کی سنجولی مسجد کی بعض منزلوں کو منہدم کردیا گیا؛ کیا ہے پورا معاملہ

بی جے پی کارکنوں اور بعض ہندو تنظیموں کے شدید احتجاج اور مسجد کو گرانے کی بڑھتی مانگ کے بعد پتہ چلا ہے کہ وقف بورڈ نے ہماچل پردیش کی سنجولی مسجد کی بعض تعمیر شدہ منزلوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے

کشن گنج میں تحفظ ناموس رسالت و اوقاف کی کمیٹی تشکیل؛ شانِ رسالت میں گستاخی برداشت نہیں کی جائے گی

معہد سنابل للبنات، تالباڑی چھترگاچھ میں بین المسالک علمائے کرام کی ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں تحفظ ناموس رسالت و اوقاف کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس میٹنگ میں علاقے کے معروف علمائے دیوبند، علمائے اہل حدیث اور علمائے بریلوی نے شرکت کی اور ایک نئی کمیٹی تشکیل دی جس کا ...

جے پی سی میٹنگ میں وقف ترمیمی بل کو لے کر مسلم تنظیموں نے کی شدید مخالفت، اپوزیشن نے کیے تیز وتند سوالات؛ اے ایس آئی اہلکاروں پر جے پی سی کو گمراہ کرنے کا الزام ؛ مقدمہ درج کرنے کا انتباہ

وقف (ترمیمی) بل پر غور کرنے کے لیے تشکیل دی گئی جے پی سی کی چوتھی میٹنگ میں بھی زبردست ہنگامہ ہوا اور  اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان پارلیمان نے تیز و تند سوالات کرتے ہوئے   ں محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے دی گئی پیشکش کو غلط قرار دیتے ہوئے میٹنگ میں ہنگامہ  برپا کیا۔

مدھیہ پردیش کے جبل پور میں سومناتھ ایکسپریس کے دو ڈبے پٹری سے اترگئے؛ رفتار دھیمی ہونے کی وجہ سے ٹل گیا بڑا حادثہ

مدھیہ پردیش کے جبل پور میں ایک ریل حادثہ پیش آیا ہے جہاں سومناتھ ایکسپریس کے 2 ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ سومناتھ ایکسپریس اندور سے جبل پور آ رہی تھی کہ اسی دوران یہ ریلوے اسٹیشن کے پاس 'ڈی ریل' ہو گئی۔ ریلوے افسران کا کہنا ہے کہ ٹرین کے اسٹیشن پلیٹ فارم پہنچنے کی وجہ سے اس کی رفتار ...

بنگال اسمبلی میں منظور 'اپراجیتا' بل، پر بہت ساری خامیاں ہونے کا بنگال گورنر کا دعویٰ؛ غور کرنے صدرہند کو کیا گیا روانہ

مغربی بنگال کے گورنر سی وی آنند بوس نے اسمبلی سے منظور کردہ ’اپراجیتا بل‘ کو غور کے لیے صدر دروپدی مرمو کو بھیج دیا ہے۔ چیف سکریٹری منوج پنت نے دن کے وقت گورنر سی وی آنند بوس کو بل کی تکنیکی رپورٹ پیش کی تھی، اسے پڑھنے کے بعد گورنر نے بل کو مرمو کو بھیج دیا۔ واضح رہے کہ اپراجیتا ...