مردم شماری کا اعلان اور اسمبلی انتخابات۔۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

Source: S.O. News Service | Published on 30th October 2024, 10:05 PM | اسپیشل رپورٹس |

نئی دہلی 30/اکتوبر ؛ مرکزی حکومت نے ایسے وقت ملک میں اگلے سال یعنی 2025 میں مردم شماری کرانے کا اعلان کیا ہے ۔ جب دو ریاستوں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں انتخابات ہو رہے ہیں ۔ مردم شماری کام کم از کم ایک سال تک جاری رہے گا اور توقع ہے کہ ڈیٹا کی جانچ، درجہ بندی اور حتمی ڈیموگرافکس کی اشاعت میں مزید ایک سال لگ جائے گا ۔ یعنی یہ کام 2026 تک ہی مکمل ہوگا ۔ تاہم اس بڑے کام کو 2028 حد بندی کے وقت تک مکمل کرنے کا مقصد ہوگا ۔ عام طور پر مردم شماری کا مقصد سماجی ترقی کے مقاصد کو ذہن میں رکھا جاتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ ریاستی انتخابات اور 2029 میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب کو ذہن میں رکھ کر کیا ہے ۔ تاکہ اپوزیشن کے ذات پر مبنی مردم شماری اور خواتین ریزرویشن کے سوال کا جواب دیا جا سکے ۔ حالانکہ مہاراشٹر میں لمبے عرصہ سے مراٹھا ریزرویشن کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ اس میں آئین بدلنے کے الزام کا جواب بھی پوشیدہ ہے ۔ بی جے پی کہہ سکتی ہے کہ ہم تو "خواتین کے خلاف سبھی طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمہ کنونشن 1979" کی سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے خواتین کو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں 33 فیصد ریزرویشن دینے کا قانون بنا چکے ہیں ۔ جسے مردم شماری اور انتخابی حلقوں کی حد بندی کے بعد لاگو کیا جائے گا ۔ گزشتہ حد بندی کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کرنے میں پانچ سال کا وقت لیا تھا ۔ اسے دیکھتے ہوئے بیشتر ماہرین کا خیال ہے 2029 کے لوک سبھا انتخاب میں بھی خواتین کے لئے کوٹا لاگو ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ مردم شماری سے انتخابی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ تبھی تو چار سال کے لمبے انتظار کے بعد 2025 می مردم شماری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ 

جہاں تک خواتین کو ریزرویشن دینے کا سوال ہے تو 128 ویں آئینی ترمیمی خواتین ریزرویشن بل 2023 کے ذریعہ دیا گیا ہے ۔ اس کا مقصد صنفی گیپ کو کم کرنا ہے ۔ ایس سی/ایس ٹی پر بھی اس کا اطلاق ہوگا ۔ یہ ریزرویشن 15 سال کے لئے ہے ۔ 17 ویں لوک سبھا (2019 - 2024) میں 15 فیصد خواتین تھیں، ریاستی اسمبلیوں میں کل ممبران کی اوسطاً 9 فیصد خواتین ہیں ۔ پہلی لوک سبھا میں صرف 5 فیصد خواتین تھیں جو 17 ویں میں بڑھ کر 15 فیصد ہو گئیں ۔ اس سے قبل 1996، 1998، 1999 اور 2008 میں بھی خواتین ریزرویشن بل پارلیمنٹ میں پیش ہوئے تھے ۔ جو پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے ساتھ ختم ہو گئے ۔ لیکن 2008 کا بل راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا تھا اور پاس ہو گیا تھا ۔ مگر 15ویں لوک سبھا تحلیل ہونے کے ساتھ ہی یہ بھی ختم ہو گیا ۔ خواتین کو 33 فیصد ریزرویشن دینے والے بل کو آخری جھٹکہ 2014 میں لگا تھا ۔ جب او بی سی، ایس سی/ ایس ٹی کے لئے کوٹے میں کوٹا دینے کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے رد ہو گیا تھا ۔ 

 بھارت میں مردم شماری کی ابتداء 1872 میں لارڈ میو کی نگرانی میں ہوئی تھی ۔ تاہم، اس گنتی کا تجربہ ایڈی ہنری والٹر کے تحت ہوا تھا، اس لیے انہیں انڈیا کی مردم شماری کا جنک سمجھا جاتا ہے ۔  انڈیا برطانوی کالونی ہونے کے ناطے، دہائی کے آغاز میں مردم شماری کرانے کا انتظام ہوا ۔ اب تقریباً پوری دنیا میں مردم شماری کا یہی وقت ہے ۔ اس روایت پر عمل کرتے ہوئے آزاد بھارت کی پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی جو ہر سال بدستور جاری رہی ۔ اس کی وجہ سے بھارت کو دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے ہونے والی مردم شماری کے ساتھ تال میل کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی ۔ معاشی مردم شماری 1976-77 میں شروع ہوئی تھی ۔ اس کا مقصد ملک کے معاشی ڈھانچے کا تجزیہ کرنا ہے۔  اس میں ملک کے معاشی اداروں سے ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جو مرکزی یا ریاستی حکومت کی مختلف اسکیمیں بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔

خود مختار بھارت میں 15 بار بلا ناغہ کی جانے والی مردم شماری کو آزاد انڈیا میں کووڈ 19 کی وجہ سے 2021 میں پہلی بار ملتوی کر دیا گیا تھا ۔ اگرچہ 2022 میں حالات ایسے تھے کہ مردم شماری کرائی جا سکتی تھی لیکن ملک کی مطلق العنان انتظامیہ کے حق میں تھا کہ مردم شماری نہ کرائی جائے ۔ کورونا سے مرنے والوں، بھوک سے متاثرہ افراد، بے روزگاروں وغیرہ کی تعداد حکومت ہند کے پاس نہیں ہے ۔ روزگار پر بحث میں، حکومت نے پارلیمنٹ کو یہ مانا کہ اس کے پاس اس کے اعداد و شمار نہیں ہیں ۔ تمام جاری اسکیموں میں استفادہ کنندگان یا ضرورت مندوں سے متعلق تمام اعداد و شمار مشکوک ہیں ۔  جس کی وجہ سے سائنسی بنیادوں پر کوئی پروگرام نہیں چل رہا ۔ مرکزی حکومت نے 19 - 2020 میں اقتصادی مردم شماری تو کرائی لیکن اس کی بنیاد 2011 کا پرانا ڈیٹا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے دو فیصلوں کا اثر ان اعداد و شمار میں سچائی سے ظاہر نہیں ہوا ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جس نے انڈیا کے معاشی منظر نامے پر بہت برا اثر ڈالا، لیکن لوگوں کی حقیقی مالی حالت کو کبھی ظاہر نہیں کیا گیا ۔ بظاہر یہ ان دونوں اقدامات کو غلط ثابت ہونے سے بچانے کے لیے کیا گیا تھا ۔ پارلیمنٹ میں بھی ابتدا میں ان دونوں فیصلوں کو مثبت اقدام قرار دیا گیا لیکن بعد میں ان پر بحث بند ہوگئی ۔

 حالیہ برسوں میں مردم شماری کا مطالبہ بڑھنے لگا تھا ۔ خاص طور پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے اپنی دو یاتراؤں (بھارت جوڑو اور نیا یاترا) میں لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی تھی کہ ہندوستان میں مختلف ذاتوں کے لوگوں کو یکساں مواقع نہیں ملتے ۔ انہوں نے بار بار بتایا کہ مرکزی حکومت میں صرف 5 سکریٹری ہیں جو او بی سی زمرہ سے آتے ہیں ۔ ان کے پاس کل بجٹ کا 5 فیصد بھی نہیں ہے ۔ اس بحث کو پہلے راہل گاندھی نے شروع کیا پھر کانگریس نے اور آخر میں حزب اختلاف کے اتحاد انڈیا نے ۔ یہ مدعا گزشتہ چند اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں بھی ایک بڑا مسئلہ بن گیا ۔ اب پورا ملک چاہتا ہے کہ ذات پات کی مردم شماری کرائی جائے تاکہ نہ صرف ریزرویشن کا نظام بہتر ہو بلکہ سماجی انصاف بھی یقینی ہو ۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ مردم شماری میں لوگوں کی ذات اور مذہب کے اعداد و شمار کو کتنی دیانتداری سے شامل کیا جائے گا ۔

اگرچہ مردم شماری ترقیاتی سکیموں اور پروگراموں کے ساتھ ساتھ مختلف سطحوں پر ہونے والے انتخابات کے پیش نظر کی جاتی ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اتنی تاخیر سے ہونے والی مردم شماری کتنی بے عیب اور شفاف ہو گی ۔ کیونکہ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ہی بھارتیہ جنتا پارٹی اگلے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنی حکمت عملی بنائے گی ۔ بی جے پی نہ صرف حد بندی کی سیاست، خواتین کے ریزرویشن، قبائلیوں، دلتوں اور انتہائی پسماندہ طبقات، اقلیتوں وغیرہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بنائے گی بلکہ وہ اپنے لیے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن اور سٹیزن شپ ترمیمی ایکٹ جیسے قوانین کے نفاذ کے لیے دروازے بھی کھولے گی ۔ ان کی بنیاد صرف مردم شماری کے اعداد و شمار ہوں گے ۔ اس کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں حکومت کی طرف سے جمع کیے گئے ڈیٹا کی درستگی، شفافیت اور جانچ کے لیے انتظامیہ کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا ۔ اس بار کی مردم شماری بہت اہم ہے، جس کے پیچھے بی جے پی کے سیاسی ارادے بھی چھپے ہو سکتے ہیں ۔

مردم شماری کے اعداد و شمار کو معاشی سماجی ترقی کی بنیاد بننا چاہیے، نہ کہ بی جے پی کی سیاست کی ۔ ہندی روزنامہ دیش بندھو کے اداریہ کے مطابق بی جے پی جو کہ 2024 میں مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے سے محروم رہی ہے، اس مردم شماری کے زور پر ملک بھر میں ووٹر لسٹوں اور ای وی ایم سے متعلق بے قاعدگیوں کا بڑا کھیل کھیل سکتی ہے ۔ شہری اپنے بارے میں درست معلومات دیں اور اس میں من مانی نہ ہونے دیں ۔ عوام کی بیداری بی جے پی کو اس کے منصوبوں میں کامیاب ہونے سے روک سکتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلہ کو آنے والے دنوں میں کس طرح پیش کرتی ہے ۔ 

ایک نظر اس پر بھی

آئینہ دکھا تو رہے ہیں، مگر دھندلا سا ہے،ای وی ایم: جمہوریت کی حقیقت یا ایک بڑا تنازع؟۔۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

بھارت، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے، اپنے انتخابی نظام میں ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کے استعمال کو لے کر طویل عرصے سے متنازعہ رہا ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کو جہاں ایک طرف انتخابی عمل کی شفافیت اور تیزی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے ...

کرناٹک ضمنی انتخابات: مسلم ووٹ کا پیغام، کانگریس کے لیے عمل کا وقت۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک کے تین اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں مسلمانوں کی یکطرفہ حمایت نے کانگریس کو زبردست سیاسی برتری دی۔ مسلم کمیونٹی، جو ریاست کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں، نے ان انتخابات میں اپنی یکجہتی ظاہر کی، اور اب یہ کانگریس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے اعتماد کا بھرپور احترام ...

کرناٹک میں نکاح ناموں کا مسئلہ:   عدلیہ، حکومت اور برادری کی کشمکش۔۔۔۔۔۔۔از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک ہائی کورٹ نے حالیہ معاملے میں ریاستی وقف بورڈ کو نکاح نامے جاری کرنے کے اختیارات پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک اہم قانونی اور سماجی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف مسلم برادری کے شرعی و قانونی معاملات پر اثرانداز ہو سکتا ہے بلکہ حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار پر بھی سوالات ...

"ہم کو ان سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے"،  کرناٹک میں وقف املاک کا مسئلہ اور حکومتی بے حسی۔۔۔۔از : عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں وقف املاک کے تنازعے میں حالیہ حکومتی سرکلر نے مسلم برادری میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے حالیہ دنوں میں ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے، جس میں وقف املاک سے متعلق جاری کیے گئے تمام احکامات کو فوری طور پر معطل کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس سرکلر کا مقصد کسانوں اور ...

شیر میسور: علم و تحقیق کے شیدائی...یوم پیدائش پر خراج تحسین....از: شاہد صدیقی علیگ

شیر میسور ٹیپو سلطان فتح علی خان کی حیات کا جائزہ لیں تو ان کی بہادری، غیر معمولی شجاعت، مضبوط ارادے، ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ جنگی حکمت عملی میں مہارت نمایاں نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان کی ادب دوستی، شعر و سخن سے دلچسپی اور علمی ذوق بھی ان کے کردار کی اہم خصوصیات کے طور ...

کرناٹک میں وقف زمین کا تنازعہ :حقوق کی بازیابی یا سیاسی مفادات کی بھینٹ؟۔۔۔۔۔ از: عبدالحلیم منصور

کرناٹک میں وقف زمینوں کا تنازعہ حالیہ دنوں میں شدت اختیار کر گیا ہے، جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر طبقات کو بھی بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ زمینیں، جو وقف کی امانت ہیں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص کی گئی تھیں، اب حکومتی مداخلت، سیاسی دعوؤں، اور مقامی کسانوں کے ...