ملک کے موجودہ حالات اور دینی سرحدوں کی حفاظت ....... بقلم : محمد حارث اکرمی ندوی
*(یاآیُّھا الذین اَمَنُوا اصبِروُا و صَابِرُوا و رَابِطُوْا و اتَّقُواللہَ لَعَلَّکُم تُفلِحُون) * سورة ال عمران
ملک کے موجودہ حالات ملت اسلامیہ ھندیہ کےلیے کچھ نئے حالات نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ صبر آزما حالات اس ملک اور خاص کر ملت اسلامیہ ھندیہ پر آچکے ہیں . افسوس اس بات پر ہے اتنے سنگین حالات کے باوجود ہم کچھ سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے. آج ہمارے سامنے اسلام کی بقا کا مسئلہ نہیں ہے اسکی کی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تبارک وتعالی نےلی ہے. آج ہمارے سامنے ملت اسلامیہ ھندیہ کی صحیح تشخص کی بحالی اور اسکی دینی وملّی پہچان کی حفاظت و بقا کا مسئلہ ہے.
یہ چار چیزیں جو اس ایت کے اندر بتائی گئی ہےآج اسکو ہمیں تھامے رہنے کی ضرورت ہے. اسمیں پہیلی چیز صبر ہے اور اسی کے فورا بعد فرمایا "وَصَابِرُوا" صبر کی فضا پیدا کرو, صبر کا ماحول پیدا کرو, صبر کی تلقین کرو اور صبر کی ترغیب دو "وَ رابِطُوا" اور جمے رہو اپنے دین پر اپنے عقیدہ پر اپنے ایمان پر, سرحدوں کی حفاظت کرو اور اس پر جمے رہو. "وَاتَّقُواللہ" اللہ سے ڈرو اور احتیاط سے کام لو , اللہ کو حاضر وناظر سمجھ کر کام کیا کرو, لَعَلَّکُم تُفلِحُون " تا کہ تم کامیاب ہو جاو.
علماء لکھتے ہیں کہ"صابروا" سے مراد دشمن کے مقابلہ میں صبر اختیار کرنا دشمن سے مقابلہ کی تیّاری کو مرابطہ کہتے ہیں یعنی دشمنان اسلام سے مقابلہ کےلیے ہمیشہ تیّار اور مستعد رہو. حدیث پاک میں وضو میں اسباغ کرنے اور مسجدوں کی طرف کثرت سے قدم بڑھانے کو بھی رباط کہا گیا ہے. رباط کی بہت بڑی فضیلت ائی ہے.
صابروا کی حکمت حضرت مولانا علی میاں رح بیان کرتے ہیں کہ "اقوام وملل کی زندگی اور قوموں کے عروج زوال کے مسئلہ میں صرف انفرادی صبر و استقامت کافی نہیں ہوتی, اجتماعی صبر و استقامت اور ہمت واستقلال کی ایک عام فضاء اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے. تاکہ ایک فرد سے دوسرے فرد کی پشت پناہی ہو اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے تقویت ملے ". اسلئے کہ تم ایک نہیں ہو بلکہ تم امت ہو، تمھارے لئے امت کے احکام ہیں، تمھارے لئے ارشاد خداوندی ہے، تمھارے لئے فرمان نبوی ہے، اسوہ رسول ہے، تم اپنی مرضی کے خود مختار نہیں ہو کہ غصہ آیا جوش آیا کھڑے ہوئے، پڑوسی کا گھر تھا غریب کا گھر تھا اسے جلادیا، میرے بھائیو! غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے آگ نہیں لگائی جاتی غصہ ٹھنڈا کرنے کےلیے زیادہ حکیمانہ زیادہ مشفقانہ زیادہ مصلحت اندیشانہ اور مبصرانی طرز عمل اختیار کرنے پڑتے ہیں"
یہ قران کا اعجاز ہے آج بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آج ہی اتری ہے. "رابطوا" کے معنی آتے ہیں رباط اصل میں ایسی مامون ومحفوظ جگہ کو جہاں لوگ مل جل کر رہیں تم ایسےجمے رہو کہ تم ایک چھاونی معلوم ہو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ,ان لوگوں کی طرح مت بنو، انکی طرح حد سے تجاوز مت کرو، تم درندگی اختیار مت کرو ، حقائق سے چشم پوشی اور ملک کے حالات کے وقت انکھیں بند کرلینا یہ تمھارا کام نہیں ہے.
میرے عزیز دوستو! یکے بعد دیگرے کامیابی ملنا ایک ہی ساتھ کئی ریاستوں کا اقتدار ملنا یہ انکو دھوکہ میں نہ ڈالیں اور آپ بھی مایوس نہ ہو ارشاد باری ہے *(لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الذِینَ کَفَروُا فِی البِلَاد ۰ متاعُُ قَلِیل ثُمَّ ماْوٰھُم جَھَنَّم وَبِئْسَ المِھَاد۰)* اور ملک کے اندر کافروں کی یہ سرگرمیاں تم کو مغالطہ میں نہ ڈالیں یہ چند دن کی چاندنی ہے پھر انکا ٹھکانہ جھنم ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے.
علماء لکھتے ہیں! کافروں کا وقتی غلبہ سے مسلمان متاثر نہ ہو اور اسکو عندللہ مقبولیت کی علامت نا سمجھیں.مزید لکھتے ہیں .....مادّی نعمتوں کا حصّہ دار ہونا کہیں تجھے اس دھوکہ میں نہ ڈالے کہ انکی حالت واقع میں قابل وقعت اور مستحق احترام ہے یہ دھوکا اتنا عام ہے کہ بہت زیادہ لوگ اس دھوکہ میں پڑے ہیں.
لیکن مسلمانوں! کامیابی تمھارے ہی مقدر میں ہے اگر تمھارا ایمان پختہ ہے اور کچھ لے اٹھنے کا عزم ہے تو یہ (ملک کے موجودہ حالات اور انکی اکثریت) بھی تمھارے لئے رحمت ہے. اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے کہ اللہ عزّوجل نے انکو ہم پر مسلط کیا ہے ہمیں سنبھلنے کے لیے ہم کو خواب غفلت سے جگانے کےلیے اگر تم تقوی اختیار کروگے تو یہ حالات ختم ہو جائینگے اور آخرت میں بھی تم فلاح پاوگے .
شروع میں جو ایت میں نے لکھی جس میں چار چیزوں کا حکم تھا- حضرت مولانا علی میاں فرماتے ہیں کہ اس ایت کو ہم اپنے دل پر لکھیں لیں "ہم اور سب لوگ قران کو اللہ کا معجزہ اور اللہ کا کلام سمجھتے ہیں لیکن یہ سب حقیقت نہیں اور اس حقیقت کو نہ جاننے سے کوئی مواخذاہ نہیں ہوگا اس لئے علم درجہ ہوتے ہیں کہ قران مجید کلی حیثیت سے بھی معجزہ ہے جزوی حیثیت سے بھی معجزہ ہے اسکی ایک ایک ایت معجزہ ہے - یہ ہمارا ایمان ہے کہ قران مجید معجزہ ہے وہ مختلف زمانوں میں مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے واضح ہوتا ہے " -
اس ایت کو ہم اپنی ذھن میں لکھ لیں اور اللہ توفیق دے تو یہ ایت ہر زمانہ کےلیے پیغام رکھتی ہے اور خاص طور پر ملک کے موجودہ حالات میں ایسا معجزہ معلوم ہوتا ہےکہ اسی زمانہ کےلیے یہ ایت اتری ہے اور ان ہی کو خطاب کیا جا رہا ہے..
اے مسلمانوں! تم کو اس صبر ازما حالات سے نکلنے کےلیے ایک ہی راستہ ہے وہ ہے دعوت کا کام اور پیام انسانیت کا کام دعوت کےلیے راستہ ہموارکرنا ہے بلکہ ایک اعتبار سے دعوت اسکا پہلا زینہ ہے حضرت مولا علی میاں رح فرماتے تھے اس ملک کو اسپین بنانے کی تیّاری کی جاچکی ہے اگر مسلمان سبق حاصل نہ کریں تو ہم خطرے میں ہیں اور اس خطرے کو میری آنکھیں دیکھ رہی ہے- اب بھی موقع ہے دعوت کے تمام راستے بند نہیں ہوئے ہیں- اللہ کے وہ دن آنے سے پہلے خواب غفلت سے اُٹھو ایک عزم لے کر بیدار ہو جاو-
حالات کو دیکھ کر مت سوچو کہ اسلام نعوذ باللہ ختم ہو جائے گا اسلام تو ختم ہونے کے لیے آیا ہی نہیں ہے- مسئلہ مایوسی کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے زندگی میں تبدیلی نہیں لا رہے ہیں ۔
ہم مدارس کے پیغام کو مدارس کی چہار دیواری تک نہیں رکھنا ہے بلکہ اسکی روشنی سے اپنے دل کو سجا کر پورے عالم کی روشنی کا انتظام کرنا ہے ہمیشہ کھلے دروازے سے داخل ہونا ہے اور اجازت لے کر داخل ہوناہے آپ مہمان ہونگے اور مہمان کا اکرام ہوتا ہے اگر بند دروازوں کو کھولنے کی کوشش کروگے تو فساد برپا ہوگا اور آپ کا اکرام نہیں ہوگا اللہ تعالی ہم سبھوں کو توفیق عطا فرمائیں۔