آج ہم اپنی آزادی کی 78 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔15/اگست 1947میں ہماراملک انگریزسامراج کے ہاتھوں سے آزاد ہوا تھا۔ یہ آزادی ایک طویل اور صبر آزماجدوجہد کا نتیجہ تھی، جس میں تمام فرقوں اور طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو انگریزوں کے ذہنی غلام تھے اور آج بھی ہیں۔ انگریزوں نے ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا جو اس ملک میں تقریباً800 سال سے اقتدار میں تھے۔ اپنے دور اقتدار میں مسلم بادشاہوں اور حکمرانوں نے ہندوستان کو ترقی اور کامرانی کی ان منزلوں تک پہنچایا جن کا آج ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کی زندہ جاوید نشانیوں میں جہاں ایک طرف تاج محل کی خوبصورتی اور دلکشی ہے تو وہیں قطب مینار کی عظمت وبلندی بھی ہے۔ لال قلعہ کا جاہ وجلال ہے تو شاہجہانی جامع مسجد کا تقدس بھی ہے۔ آج سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان یادگاروں کو بے نام ونشان کرنے اور تاریخ کے اوراق سے غائب کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان سورماؤں کا نام ونشان مٹانے کی بھی منظم کوششیں جاری ہیں جنھوں نے ہندوستان کی مانگ اپنے خون سے روشن کی تھی،مگر ان کی قربانیاں اتنی لازوال ہیں کہ انھیں کبھی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتا۔ان قربانیوں کی داستان ہندوستان کے چپے چپے پر لکھی ہوئی ہے۔ آج ہم یہاں ایسے ہی کچھ سورماؤں کا تذکرہ کریں گے، جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے لازوال جذبہ حریت سے دنیا کے بہادر سپوتوں کی فہرست میں اپنا نام سنہری حرفوں سے درج کرایا۔ ان میں پہلا نام شیرمیسور ٹیپوسلطان کا ہے۔
ٹیپو سلطان نے7 مئی 1799کو سرنگا پٹنم کے مقام پر انگریزوں سے لوہا لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔انہوں نے انگریز سپاہ کا مقابلہ اتنی بہادری اور جرأت کے ساتھ کیا کہ ان سے لوہا لینے والی فوج کے کمانڈرنے کہا تھا کہ ”ٹیپو سلطان نے ایک شیر کی طرح جنگ لڑی۔“انگریز سپاہ پر ٹیپوسلطان کا رعب اور دبدبہ اتنا زبردست تھا کہ وہ ان کی لاش کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ کسی طرح ہمت کرکے وہاں پہنچے اور ٹیپو سلطان کی لاش کے اوپر پاؤں رکھ کر کہا کہ ”آج ہندوستان ہمارا ہے۔“ٹیپو سلطان کا یہ قول آج بھی تاریخی کتابوں میں سنہرے لفظوں سے لکھا ہوا ہے کہ ”گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہوتی ہے۔“
مادر وطن کی حفاظت کے لئے غیر معمولی جرأت اور بہادری کی مثال صرف ٹیپو سلطان نے ہی پیش نہیں کی بلکہ ایسے ہزاروں واقعات نقل کئے جاسکتے ہیں جن میں مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بے مثال قربانیاں دیں اور جذبہ حریت کی مثالیں قائم کیں۔1857کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے دہلی میں وحشیانہ قتل عام کیا اور ہر درخت پر حریت پسندوں کی لاشیں لٹکا دیں۔اسی دوران آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر لیا گیا۔انگریزوں نے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے سر قلم کرکے ایک طشتری میں سجا کر انہیں پیش کئے۔اپنے جگر پاروں کے کٹے ہوئے سر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔انہوں نے اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”خاندان تیموریہ کے فرزند ایسے ہی سرخرو ہوکر پیش ہوتے ہیں۔“دنیا میں جدوجہد آزادی کی کوئی تاریخ جذبہ حریت کی ایسی لازوال مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
تحریک خلافت کے رہنما اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر کی قربانیوں سے کون واقف نہیں۔انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کی اور انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا۔لندن کی گول میز کانفرنس میں انگریز سامراج کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ”میں اپنے ملک کو اسی حالت میں واپس جا سکتا ہوں جبکہ میرے ہاتھوں میں آزادی کا پروانہ ہوگا۔اگر آپ نے ہندوستان کو آزادی نہیں دی تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر کے لئے جگہ دینی پڑے گی۔“ اپنے اس انقلابی بیان کی لاج مولانا محمد علی نے ایسے رکھی کہ وہ ہندوستان واپس نہیں آئے اور انہوں نے 4 جنوری 1931کو لندن میں اپنی جان جان ِآفریں کے سپرد کردی۔مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی جنگ آزادی کے ایسے سپاہی تھے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔آج بھی بیت المقدس میں مولانا محمد علی کی قبر پر جو کتبہ لگا ہوا ہے، اس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے۔’محمد علی الہندی‘۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے کہ ”اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا کہ مولانا محمد علی نے ایک سوتی ہوئی قوم کو ابھار کر ایک قوت بنا دیا تھا۔انہوں نے ٹوٹی ہوئی کشتی کے ملاح کی طرح طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دی۔مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ”وہ شکست خوردہ قوم کا آخری سپاہی تھا جو اعداء کے نرغے میں تنہا لڑرہا تھا۔آخر کار زخموں سے چور ہوکر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوسکا۔“
یوں تو ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہزاروں متوالوں نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور وطن پر اپنی جان نچھاور کردی لیکن ان میں ایک نام ایسا ہے جسے وطن عزیزپر جان قربان کرنے والوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے۔یہ تھے شہید وطن اشفاق اللہ خاں جنہوں نے 27 برس کی عمر میں تختہ دار کو بوسہ دینے سے قبل اپنی ماں کو جو آخری خط لکھا تھا‘ وہ وطن کے لئے ان کی بے پناہ محبت کا آئینہ دار ہے۔انہوں نے لکھا تھا کہ ”اگر مجھے ہزار بار پھانسی دی جائے اور میں ایک ہزار دفعہ مرمر کے دوبارہ پیدا ہوں تو بھی وطن کے لئے مر مٹنے کا میرا جذبہ اسی طرح تروتازہ رہے گا۔“ مشہور زمانہ کا کوری کیس میں 6 اپریل 1927کو سیشن جج ہملٹن نے اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی۔ان پر پانچ دفعات لگائی گئی تھیں جن میں دو دفعات کے تحت تاعمر کالا پانی کی سزا اور تین دفعات کے تحت سزائے موت دی گئی تھی۔پھانسی کا فیصلہ سننے کے باوجود ان کے اطمینان اور سکون میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا۔جیل کے ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ کسی موت کے مہمان کا وزن بڑھ جائے۔جس وقت اشفاق اللہ خاں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ اس وقت ان کا وزن 178پونڈ تھا اور اس کے بعد جب پھانسی دی جانے والی تھی تو ان کا وزن203پونڈ ہوچکا تھا۔وزن میں یہ اضافہ وطن پر قربان ہونے کی خوشی میں ہوا تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی والدہ کے نام خط میں بھی کیا تھا۔
یوں تو انگریز سامراج سے لوہا لینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن ہم نے یہاں صرف چند ایسے سورماؤں کا تذکرہ کیا ہے جن کے کارنامے لازوال ہیں اور جنھوں نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ جن دیگر عظیم مجاہدین آزادی نے اپنی جدوجہد سے ہندوستان کو سرخرو کیا، ان میں نواب سراج الدولہ،شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی،علامہ فضل حق خیرآبادی،مولوی محمدباقر،مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمدمدنی،مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی،حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختار احمدانصاری، خان عبدالغفار خاں اوررفیع احمد قدوائی جیسے درجنوں نام شامل ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ہندوستان کی آزادی کی راہیں متعین کیں اور ہمیں ایک آزاد فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ آئیے آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان سورماؤں کے کارناموں سے واقف کرانے کا عہد کریں تاکہ وہ اس ملک میں سراٹھا کرجینے کا حوصلہ پیدا کرسکیں۔