کیا یہ مسلمانوں کی سماجی و معاشی بائیکاٹ کی ایک سازش ہے؟ ۔۔۔۔۔۔از: سہیل انجم
کیا کانوڑ یاترا کے بہانے مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی تیاری چل رہی ہے اور کیا وہ وقت دور نہیں جب تمام قسم کی دکانوں اور مکانوں پر مذہبی شناخت ظاہر کرنا ضروری ہو جائے گا؟ یہ سوال یوں ہی نہیں پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس کی ٹھوس وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاترا کے روٹ پر ہوٹلوں، ڈھابوں، ٹی اسٹالوں اور پھلوں و سبزیوں کی ریڑھیوں پر اپنا نام لکھنے کی ہدایت ایک بہت بڑی سازش کا حصہ ہے۔ یہ سازش اسی ذہنیت کی پیداوار ہے جو کورونا کے وقت مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ کی اپیلیں کیا کرتی تھی اور یہی ذہنیت وقتاً فوقتاً ہندوؤں سے اپیل کرواتی ہے کہ مسلمانوں کی دکانوں سے خریداری نہ کریں، ان سے سودا سلف نہ لیں۔
قارئین کو معلوم ہے کہ 22 جولائی سے کانوڑ یاترا شروع ہو رہی ہے۔ یہ یاترا یوں تو ایک ماہ تک چلتی ہے لیکن کم از کم پانچ اگست تک تو چلے گی ہی۔ اس یاترا کے دوران خود کو شیو کے بھکت اور عقیدت مند کہنے والے لوگ کانوڑ لے کر ہریدوار تک یاترا کرتے ہیں۔ بیشتر پیدل چلتے ہیں لیکن ٹرکوں سے بھی سفر کیا جاتا ہے اور اس پر پرشور انداز میں ڈی جے بجایا جاتا ہے۔ یاتری وہاں سے گنگا جل لاتے اور مقامی شیو مندروں میں چڑھاتے ہیں۔ بعض مقامات پر کانوڑیوں کی جانب سے بد تمیزی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ کانوڑ یاترا کا روٹ 240 کلومیٹر لمبا ہے۔ یہ روٹ اترپردیش، اتراکھنڈ اور بہار سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس روٹ پر مسلم آبادی تیس سے چالیس فیصد ہے۔ مظفر نگر سے ہریدوار جانے والے ہائی وے پر بہت سے مسلمانوں کی بھی دکانیں، ہوٹل، ڈھابے اور چائے خانے ہیں۔
گزشتہ دنوں اچانک مظفر نگر کے پولیس سربراہ ابھیشیک سنگھ نے اعلان کر دیا کہ اس روٹ پر جتنے ہوٹل ڈھابے اور چائے خانے ہیں ان پر مالکوں اور ملازموں کے نام لکھے جانے چاہئیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ شیو بھکتوں میں کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ یعنی یہ معلوم ہو کہ کون سی دکان ہندو کی ہے اور کون سی مسلمان کی۔ جب اس پر احتجاج ہوا تو انھوں نے اس میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا کہ لوگ رضاکارانہ طور پر ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ اس اعلان کا اطلاق خاص طور پر مسلمانوں کے اوپر ہو رہا ہے۔
اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ نشان دہی ہو سکے کہ کون سی دکان مسلمان کی ہے اور کون سی ہندو کی تاکہ یاتری مسلم دکانوں سے خریداری نہ کریں۔ نہ ہی ان کے ہوٹلوں پر کھائیں پئیں۔ جب اس اعلان پر زیادہ احتجاج ہونے لگا تو یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اعلان کر دیا۔ اور پھر اترا کھنڈ کی پولیس نے بھی کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ یوگی نے یہ اعلان اپنی کرسی کھسکتی دیکھ کر کیا ہے۔ وہ اعلیٰ کمان کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ پکے ہندو ہیں اور اگر ان کو ہٹایا گیا تو پورا ہندو سماج احتجاج میں کھڑا ہو جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے بھی یہ اعلان از خود نہیں کیا تھا بلکہ مظفر نگر کے ایک ہندو مذہبی رہنما سوامی یشویر مہاراج نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ بڑی تعداد میں مسلمان اپنی مذہبی شناخت چھپا کر ہندو نام سے ہوٹل ڈھابے چلا رہے ہیں۔ ان کے بقول مظفر نگر کی ضلع انتظامیہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ تمام مسلمان اپنے ہوٹلوں، ڈھابوں، چائے کی دکانوں اور پھل و سبزی کی ریڑھیوں پر جلی حروف میں اپنا نام لکھیں گے۔ مذکورہ حکم اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ اترپردیش کے ایک وزیر کپل دیو اگروال نے الزام عاید کیا کہ مسلمان ویشنو ڈھابہ بھنڈار، شاکومبھری دیوی بھوجنالیہ اور شدّھ بھوجنالیہ جیسے نام رکھ کر گوشت سے تیار غذا فروخت کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمانوں نے اپنے ہوٹلوں، ڈھابوں اور پھل و سبزی کی دکانوں پر موٹے حروف میں اپنا نام لکھ دیا ہے۔
اس حکم سے متعلق مظفر نگر پولیس سربراہ کی ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد حزب اختلاف، انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون دانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ کانگریس پارٹی کے میڈیا اور پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پون کھیڑا نے کہا کہ یہ حکم مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہے۔ یہ ان کا اقتصادی بائیکاٹ ہے۔ جو لوگ پہلے اس کا فیصلہ کرتے تھے کہ لوگ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں، اب اس کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ کس سے خریدیں اور کس سے نہ خریدیں۔ اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اسے سماجی جرم قرار دیا۔ انھوں نے اسے سماج کو تقسیم کرنے والا حکم قرار دیتے ہوئے عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ از خود نوٹس لے کر اس پر فوری کارروائی کرے۔
اہم مسلم شخصیات اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس ہدایت پر سخت اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہندوتو کی سیاست کا ایک حصہ ہے اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا۔ لیکن اگر اسے نہیں روکا گیا اور یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ صورت حال بھی پیدا ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اپنے سینے پر لکھیں کہ وہ مسلمان ہیں اور اپنے گھروں پر مسلم شناخت آویزاں کریں۔ ابھی صرف کھانے پینے کی دکانوں کے لیے حکم جاری کیا گیا ہے آگے چل کر دوسری دکانوں کے لیے بھی ایسا حکم جاری ہو سکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جتنے بڑے علاقے کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا ہے وہ غزہ کے برابر ہے اور اگر یہ چیز عام ہو جائے، قابل قبول ہو جائے اور لوگ چپ رہیں تو یہ سلسلہ لامتناہی ہو جائے گا اور اس کا کہیں خاتمہ نہیں ہوگا۔ نہ صرف پوری ریاست میں بلکہ بی جے پی اقتدار والی تمام ریاستوں میں ایسا حکم جاری ہوگا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنے گھروں پر نشانی لگائیں۔ گجرات اور دہلی کے فسادات میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ فساد سے قبل مسلمانوں کے گھروں پر نشان لگا دیے گئے تھے اور انہی مکانوں پر حملے ہوئے تھے۔ اس سے مسلم دکانداروں پر حملے اور تشدد کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ متعدد ہندو ڈھابوں کے مالکوں نے با دل ناخواستہ مسلم ملازموں اور کاریگروں کو نکال دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ انتظامیہ کے حکم کے آگے بے بس ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پولیس ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اس اعلان کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسلم پھل فروشوں نے بھی اپنی ریڑھیوں پر اپنا نام لکھ دیا ہے۔ اس حکم کی مخالفت صرف مسلمان ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہندو کر رہے ہیں۔ وہ اسے مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے والا فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے آئے ہیں لیکن موجودہ حکومت اس اتحاد و یکجہتی کو توڑنا چاہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بی جے پی کی ہندوتوا کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ اس سیاست کی وجہ سے انتخابات میں بی جے پی کی کراری ہار ہوئی ہے لیکن وہ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے۔ حالانکہ عوام نے بہت واضح انداز میں حکومت کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ منافرت کی سیاست پسند نہیں کرتے اور وہ ایسی سیاست کرنے والوں کو اقتدار میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ عوام نے تو بی جے پی کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اس نے حلیف پارٹیوں کو ملا کر حکومت بنا لی اور اب یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ عوام نے اسے تاریخی مینڈیٹ دیا ہے۔
بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور پیار محبت کا ملک ہے۔ اس نے نفرت کی سیاست کو نہ کبھی پسند کیا ہے اور نہ ہی کبھی پسند کرے گا۔ جس نے بھی ہندو مسلم بھائی چارے کو توڑنے کی کوشش کی عوام نے اسے سبق سکھایا ہے۔ لیکن بی جے پی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہی ہے۔ انتخابات میں شکست کے باوجود اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر وہ اسی راستے پر چلتی رہی تو وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ وہ پھر پارلیمنٹ میں دو ممبران تک سمٹ کر رہ جائے گی۔