کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!
فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب پونجی وادی بحران کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ جائے اور تب تک بالادستی کی حالت میں رہنے والی اجارہ دارانہ پونجی پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے۔
ایسی حالت میں فاشسٹ عناصر کا کردار مشاورت کو موڑنے کا ہوتا ہے، تاکہ بحران زدہ پونجی واد کے تحت جینے کی بنیادی تکلیف کو کچھ بے بس مذہبی یا نسلی یا لسانی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور غصے کو پھیلا کر ڈھکا جا سکے۔ اس کے علاوہ جب فاشسٹ عناصر اقتدار میں آتے ہیں تو سرکاری استحصال کا استعمال تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ ہی فاشسٹ عناصر کے اپنے شورش پسند اقلیتوں، نظریہ سازوں، دانشوروں، سیاسی مخالفین اور آزاد ماہرین تعلیم کے خلاف ’نگرانی گروپ‘ کے طور پر کام کرنے لگتے ہیں۔
ہندوستان کے حالات اس پیٹرن پر پوری طرح فِٹ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ فاشسٹ گروپوں کے سیاسی اقتدار تک پہنچ جانے سے اس میں ایک اور عنصر بھی جڑ گیا ہے۔ اجارہ دار پونجی کے اندر یہ ایک نیا ابھرتا ہوا عنصر ہے- نیا اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ جس کی فاشسٹ گروپوں کے ساتھ خاص نزدیکیاں ہیں۔ فرانس کے مشہور مارکسوادی رائٹر ڈینیل گویرین نے اپنی کتاب ’فاشزم اینڈ بگ بزنس‘ میں بتایا تھا کہ جرمنی میں ٹیکسٹائلس اور صارفین کے سامان جیسے شعبوں سے جڑے پرانے اجارہ دار سرمایہ داروں کے مقابلے میں اسپات، پیداوار اشیا، اسلحہ اور جنگی اشیا جیسے شعبوں میں نئے ابھرتے اجارہ دار سرمایہ داروں نے 1930 کی دہائی میں نازیوں کی کہیں مضبوطی کے ساتھ مدد کی تھی۔
کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرانے اجارہ دار سرمایہ دارانہ گروپ نے نازیوں کی حمایت نہیں کی۔ دراصل مشہور و معروف ماہر معیشت مائیکل کالیکی نازی حکومت کو فاشسٹ بیداری اور بڑے کاروبار کے درمیان شراکت دار کی شکل میں دیکھتے ہیں اور وہ سرماہی داروں کے معاملے مین کوئی فرق نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ نئے اجارہ دار گروپ فاشسٹ عناصر کو زیادہ سرگرم، زیادہ جارحانہ حمایت فراہم کرتے ہیں۔
ایسے ہی جاپان میں نسان اور موری جیسی کمپنیاں شنکو زیباتسو، یعنی اجارہ دار سرمایہ داروں کا ابھرتا ہوا نیا گروپ تھا جو 1930 کی دہائی میں جاپانی فوجی فاشسٹ حکومت کی حمایت کرنے والی متسوئی، متسو بشی اور سمیتومو (جاپانی صنعت کاری کی علم بردار) جیسے پرانے زیباتسو کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ تھیں۔
ایک بار پھر یہ معاملہ پرانے اجارہ دار گھرانوں کے ذریعہ فاشسٹ حکومت کو حمایت نہ کرنے کا نہیں ہے۔ انھوں نے واضح طور سے ایسا کیا اور اسی حمایت کے سبب عالمی جنگ کے بعد جاپان میں جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت والی امریکی حکومت نے پرانے زیباتسو گھرانوں کو بھی ختم کر دیا۔ یہ دیگر بات ہے کہ بعد میں وہ ایک الگ شکل میں پھر سے ابھر آئے۔ لیکن یہ نئے اجارہ دار گھرانے تھے جن کی فوجی-فاشسٹ حکومت کے لیے حمایت مکمل، مطلق اور کہیں زیادہ جارح تھی۔
یہاں بھی ہندوستان کے حالات اس پر پوری طرح فِٹ بیٹھتے ہیں۔ اڈانی اور امبانی جیسے نئے اجارہ داری والے گھرانے مودی حکومت کی حمایت میں کہیں زیادہ سرگرم رہے ہیں اور بدلے میں انھیں پرانے اور مضبوط اجارہ داری والے گھرانوں کے مقابلے میں اس طرح کی حمایت س ے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ پرانے گھرانے اپنی حمایت سے کسی بھی طرح پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹاٹا گروپ کے چیف نے ہندوتوا حکومت کے ساتھ اپنے گھرانے کی نزدیکی کو نشان زد کرنے کے لیے ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا دورہ بھی کیا۔
خاص طور سے نئے اجارہ دار عناصر اور عام طور سے اجارہ دار پونجی کے ساتھ مودی حکومت کے گہرے سانٹھ گانٹھ کو اکثر ’کرونی کیپٹلسٹ‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مخاطبت ایک طرح سے اقتدار میں فاشسٹ عناصر اور اجارہ دار پونجی، خصوصاً نئی اجارہ دار پونجی کے درمیان سانٹھ گانٹھ کی گہرائی کی سطح کی عکاسی نہیں کرتا۔ اسے ’کارپوریٹ-ہندوتوا گٹھ جوڑ‘ کی شکل میں بہتر طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔
درحقیقت سبھی سرمایہ دار ایک یقینی معنوں میں کرونی کیپٹلسٹ ہے: ہر کھیل کے اپنے اصول ہوتے ہیں، جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان اصولوں کے اندر دانشمندی کا استعمال ’کرونیز‘ کے حق میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے لیے، ایک ٹھیکہ لینے کے لیے ایک درخواست دہندہ کو کچھ منیمم پیمانوں کو پورا کرنا ہوتا ہے، لیکن ان پیمانوں کو پورا کرنے والے لوگوں میں سے ٹھیکہ انھیں مل جاتا ہے جن کے پاس مناسب ’کنکشن‘ ہے یا جن کا ’پس منظر‘ ٹھیک ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داری کے تحت ٹھیکے دینا کبھی بھی آنکھیں موند کر نہیں ہوتا، لیکن جب بھی جانبداری کی جاتی ہے تو ایک منظم طریقے سے اور ’کھیل کے اصولوں‘ کے مقرر دائرے میں۔
اس میں شبہ نہیں کہ اجارہ دار سرمایہ داری کے تحت ایسے سرمایہ داروں اور حکومت کے درمیان کا یہ رشتہ کہیں قریبی ہو جاتا ہے۔ روڈولف ہلفرڈنگ نے اپنی کتاب ’داس فنانج کیپٹل‘ میں بینکوں اور صنعتی پونجی کے درمیان ایک ’ذاتی گٹھ جوڑ‘ اور اس کی بنیاد پر ’مالیاتی اشرافیہ نظام‘ کے بننے کی بات کی تھی۔
کثیر ملکی کمپنیوں کے افسران کو سینئر سرکاری عہدوں پر تقرری دی جاتی ہے، اور اسی طرح سینئر سرکاری اہلکار آسانی سے کثیر ملکی کمپنیوں میں سینئر ایگزیکٹیو عہدے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کی پالیسی اجارہ دار والے سرمایہ کاروں کے مفادات کے موافق بنائی جاتی ہے، حالانکہ یہ سب بھی ’کھیل کے اصولوں‘ کے دائرے میں ہی ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ جب سی آئی اے نے گوانٹے مالا میں جیکوبو اربینز کا تختہ پلٹ کیا، کیونکہ ان کے اراضی اصلاحات نے امریکہ کی یونائٹیڈ فروٹ کمپنی کو خاصہ نقصان پہنچایا تھا، یا جب سی آئی اے اور ایم آئی-6 نے ایران کے پریمیر موسادیگھ کا تختہ پلٹ کیا کیونکہ ان کی تیل صبعت کا نیشنلائزیشن کرنے سے برطانوی تیل کمپنی ’اینگلو-ایرانین‘ کی بالادستی ختم ہو گئی تھی، تب جارحانہ حکومتیں اجارہ دار سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت کر رہی تھیں۔ لیکن اس میں بھی ’کھیل کے اصولوں‘ کو حاشیے پر نہیں ڈالا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت آج تک رسمی طور سے اس تختہ پلٹ میں ہاتھ ہونے سے انکار کرتی ہے جس نے ایران کے شاہ کو اقتدار میں لایا۔
حالانکہ فاشسٹ عناصر کے اقتدار میں آنے سے یہ سب بدل جاتا ہے۔ اس میں ایک بنیادی بدلاؤ یہ بھی ہے کہ ’کھیل کے اصولوں‘ کو بھی بدل دینا تاکہ اجارہ دار سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو۔ ہندوستان کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہے۔ جب وزیر اعظم نے فرانس حکومت سے رافیل طیارہ کے مقامی مینوفیکچرر کی شکل میں انل امبانی کی تازہ بنی فرم کو منظور کرنے کے لیے کہا، تو کسی بھی عالمی ٹنڈر کا کوئی سوال نہیں تھا، اور نہ ہی کسی منیمم پیمانہ کو پورا کرنے کا۔ یہاں تک کہ سرکاری کمپنی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔
ایسے ہی ہنڈن برگ رپورٹ کے باوجود اڈانی گروپ کے معاملے میں جانچ کا کوئی حکم نہیں دیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت کچھ کمپنیوں کا انتخاب کرنے اور انھیں دیگر ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ مقابلے میں ’فاتح‘ بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو اجارہ دار پونجی، خاص طور سے نئی اجارہ دار پونجی اور ریاست کے درمیان بے حد نزدیکی رشتوں کو بیان کرتا ہے۔ ان ممکنہ ’فاتحوں‘ کو چننے میں کسی طرح کے ’کھیل کے اصول‘ نہیں ہوں گے جن پر عمل کیا جائے۔ اس میں سیدھے طور پر اجارہ دار سرمایہ کاروں کی حکومت بنانے کے لیے ریاست کی مدد شامل ہوگی، جن کے ساتھ ہندوتوا عناصر نے گٹھ جوڑ کیا ہے۔
دوسری طرف نئے اجارہ داری والے عناصر یہ یقینی کر کے رد عمل دیتے ہیں کہ ہندوتوا حکومت کو مکمل میڈیا حمایت ملے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ جو کچھ ٹی وی چینل تھوڑے بہت آزاد رہ گئے تھے، انھیں اڈانی کے ذریعہ خرید لیا گیا ہے تاکہ کارپوریٹ-ہندوتوا اتحاد کے لیے اتفاق رائے سے میڈیا حمایت حاصل کرنے کا عمل مکمل ہو سکے۔
مسولینی نے جسے ’اسٹیٹ اور کارپوریٹ طاقت کا ملن‘ کہا تھا، اس کی یاد دلاتے ہوئے اس پورے عمل کو صرف ’کرونی کیپٹلزم‘ کا معاملہ کہنا بڑی تصویر کو نہیں دیکھنے جیسا ہوگا۔ دراصل کرونی کیپٹلزم کا اظہار ہی یہ ماننا ہے کہ کہیں ایک ’شفاف‘، ’غیر کرونی‘ سرمایہ داری ہے، لیکن ہندوتوا طاقتوں کی حکومت میں اسے تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔
سچ کہیں تو ایسی کوئی سرمایہ داری ہوتی ہی نہیں۔ سبھی طرح کی سرمایہ داری دراصل ’کرونی کیپٹلزم‘ ہے، لیکن اسٹیٹ اور پونجی کے درمیان کا رشتہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے اور اجارہ دار سرمایہ داری کے دور میں یہ دانت کٹی روٹی جیسا ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ مزید بدل جاتا ہے جب ڈور کارپوریٹ-ہندوتوا گٹھ جوڑ کے ہاتھ ہو۔
(بشکریہ: پربھات پٹنائک، پیپلز ڈیموکریسی)