کاروار : بہت پہلے خستہ ہو چکا تھا کالی ندی پر بنا ہوا پُل - افسران، سیاست دان اور ٹھیکیدار کمپنی کے رول پر اٹھ رہے ہیں سوال
کاروار 9 / اگست (ایس او نیوز) اتر کنڑا میں کاروار اور سداشیوگڑھ کے بیچ کالی ندی پر بنا ہوا تقریباً چالیس سال پرانا پُل تین دن پہلے منہدم ہونے کے بعد ضلع انتظامیہ، نیشنل ہائی وے اتھاریٹی اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کی چوکسی اور کارکردگی پر کچھ سوال اٹھنے لگے ہیں ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کالی ندی کا پُل تین دن پہلے آدھی رات کے وقت گرنے کا معاملہ اچانک ہی پیش نہیں آیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پُل عوامی استعمال کے لئے خطرناک ہونے کی بات سال 2010 میں ہی سامنے آئی تھی ۔ اُس وقت کے ضلع ڈپٹی کمشنر نے پُل منہدم ہونے کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے آٹھ دن تک اس پُل پر سواریوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دی تھی ۔
لہِٰذا گزشتہ چودہ برس سے کسی نہ کسی دن اس پُل کے گرنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا اور عوام اسے محسوس کر رہے تھے ، لیکن ضلع انتظامیہ کے کچھ افسران ، نیشنل ہائی وے اتھاریٹی اور دیگر محکمہ جات نے اس خطرے کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا اور یوں سمجھ رہے تھے کہ یہ پُل اس طرح گرنے والا نہیں ہے ۔
جب نیشنل ہائی وے 66 کی چار لین میں توسیع کا منصوبہ بنا اور شراوتی، گنگاولی، اگناشنی اور کالی ندی پر بنے پرانے پُلوں کی جگہ نئے پُل تعمیر کرنے کی بات منصوبے میں شامل کی گئی تھی تو اُس وقت کالی ندی کے اس پُل کو خستگی کی بنیاد پر ناقابل استعمال قرار دیتے ہوئے اس کی جگہ نئے پُل کی تعمیر بھی منصوبے میں شامل کی جا سکتی تھی ۔ لیکن نیشنل ہائی وے اتھاریٹی کے تخمینہ میں یہ پُرانا پُل کیوں شامل نہیں کیا گیا یہ ایک راز بنا ہوا ہے ۔
مگر ایک بات طے ہے کہ عوامی منتخب نمائندے ہوں یا سرکاری افسران ان میں سے کسی نے بھی عوام کے جان و مال کو درپیش خطرے کی بات سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور اس پرانے پُل کی جگہ نیا پُل تعمیر کرنے کے لئے دباو نہیں ڈالا تھا ۔ اس طرح ٹھیکیدار کمپنی کے حساب میں خرچ ہونے والی رقم کی بچت ہوگئی ۔ سرکاری افسران پرانے پُل کو ہی رنگ روغن چڑھا کر اسے نئے پُل کے روپ میں پیش کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دینے کے چکر میں تھے ۔ ٹھیکیدار کمپنی کی طرف سے اس پُل کی خستگی دور کرنے اور اسے مستحکم کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ بڑے بڑے شگافوں میں تارکول بھر کر اس طرح چھپایا گیا کہ کسی کو شبہ نہ ہو ۔ اس طرح جانتے بوجھتے عوام کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے کا کام کیا گیا ۔ وہ تو اچھا کہ پُل گرنے کا حادثہ رات کے وقت پیش آیا اور اُس وقت زیادہ ٹریفک بھی پُل پر موجود نہیں تھی ۔
اب حادثے کے بعد ایک محکمہ دوسرے محکمہ پر الزام تراشیاں کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی چالیں چلنے میں لگا ہوا ہے ۔ ایک محکمہ کی جانب سے دوسرے محکمہ کے خلاف پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروائی جا رہی ہے ۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹھیکیدار کمپنی آئی آر بی کے ساتھ اندرونی طور پر ساز باز کرنے، کمپنی کو یہاں کی چٹانوں کے ٹکڑے رایلٹی ادا کیے بغیر لے جانے، کالی ندی کے کنارے سداشیو گڑھ پرانے پُل کے قریب موجود خوب صورت پہاڑٰی کو ڈائنامائٹ سے اڑانے، شاہراہ کی تعمیر کا کام مکمل نہ ہونے کے باوجود ٹول وصولی شروع کرنے، کالی ندی پر نیا پُل تعمیر کرنے کے لئے بہت ہی زیادہ وزنی مشینری کھڑی کرنے کے لئے پرانا اور خستہ پُل استعمال کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کے علاوہ پورے ضلع میں غیر معیاری کام کی انجام دہی کا راستہ آسان کرنے والے ضلع انتظامیہ کے افسران کب کے یہاں سے ٹرانسفر ہو چکے ہیں ۔ وہ افسران تو اب بینگلورو یا دوسرے بڑے شہروں میں مزید اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں ۔ جن سیاسی نمائندوں اور لیڈروں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے ٹھیکیدار کمپنی سے عوامی مفادات کا سودا کیا تھا وہ سب اپنی جیبیں بھر کر خاموش بیٹھے ہیں ۔ اس قسم کے حادثے یا اس کے برے نتائج سے اب ان میں سے کسی کا بھی کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔