بی جے پی کی شکست کا ایک بڑا سبب پیپر لیک ہے، قنوج کے سابق ایم پی نے اٹھائے اپنی ہی حکومت پر سوال
قنوج ، یکم جولائی (ایس او نیوز /ایجنسی) اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی شکست بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں قنوج کے سابق رکن پارلیمنٹ سبرت پاٹھک نے ایک نیا دعویٰ کر کے بی جے پی حکومت پر ہی سوال کھڑے کر دیئے۔ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات 2024 میں اتر پردیش میں بی جے پی کی شکست کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن ان میں سے ایک اہم وجہ پیپر لیک بھی ہے۔
سابق رکن پارلیمنٹ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ہے کہ اتر پردیش کی پولیس بھرتی میں پیپر لیک ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آہستہ آہستہ ملک بھر کی مختلف ریاستوں کے مختلف امتحانات میں پیپر لیک ہونا ہماری زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس بار نیٹ امتحان میں پیپر لیک ہونے کا معاملہ ملک گیر سطح کا مسئلہ بن گیا ہے۔ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں پیپر لیک ہونے پر سخت قانون بنایا تھا اور نیٹ امتحان میں پیپر لیک ہونے کی سی بی آئی جانچ کے بعد ملک بھر میں اب بھی کئی اہم گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
بی جے پی کے سابق ایم پی نے اپنی طویل پوسٹ میں پیپر لیک پر سوال اٹھاتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات بار بار ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہمارا نظام ان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں خود سمجھنا ہوگا۔ انگریزوں نے ہمارا ملک چھوڑ دیا لیکن ہماری جڑوں میں کرپشن چھوڑ دی اور یہ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن گیا اور پھر ہمارے ملک کے سیاسی لیڈروں کی حفاظت میں یہ کرپشن ہمارے تعلیمی نظام میں بھی داخل ہو گیا۔ اس سے ہمارا نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اسکولوں، کالجوں اور کوچنگ سینٹرز کے لیے تعمیر کی گئی بڑی بڑی عمارتوں نے تعلیم کو مکمل طور پر کاروبار میں تبدیل کر دیا۔
سبرت پاٹھک نے مزید کہا ہے کہ پورے ملک میں بالخصوص یوپی اور بہار میں کچھ سیاسی پارٹیوں اور بدعنوان لیڈروں کی سرپرستی میں ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ جیسے امتحانات میں دھوکہ دہی کو ادارتی شکل دے دیا گیا اور جسے آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے نے بھی قبول کرلیا۔ اب اگر کسی کی تعلیم کا آغاز بے ایمانی یعنی دھوکہ دہی سے ہوا اور وہ کسی عہدے پر پہنچ جائے تو اس سے اخلاقیات کی توقع رکھنا بھی بے ایمانی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اسے ختم نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے لیے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اپوزیشن کا تعاون بھی درکار ہے۔