جھانسی میڈیکل کالج میں آتشزدگی کا سانحہ، سنگین غفلت کے دو بڑے پہلو سامنے آگئے
لکھنؤ، 16/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی)اتر پردیش کے جھانسی میں میڈیکل کالج کے نیونیٹل انسٹینسیو کیئر یونٹ (این آئی سی یو) میں لگنے والی آگ نے پورے ملک کو غم میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس افسوسناک واقعے میں 10 نومولود بچوں کی جان چلی گئی، جبکہ 16 دیگر بچے شدید زخمی حالت میں اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ این آئی سی یو اسپتال کا وہ خصوصی وارڈ ہوتا ہے جہاں وقت سے پہلے پیدا ہونے والے یا شدید بیمار نوزائیدہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہاں جدید طبی آلات اور ماہرین کی نگرانی میں بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، مگر اس حادثے نے حفاظتی انتظامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ان بچوں کی موت کے بعد پورے علاقے میں غم کا ماحول ہے اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ سانحہ کیسے ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ آگ کیسے لگی اور کیوں بروقت اس کا پتہ نہیں چل سکا؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ اسپتال میں لامپرواہی کا کس حد تک دخل تھا؟
جھانسی میڈیکل کالج میں آگ لگنے کے بعد سامنے آئی ایک رپورٹ کے مطابق، وارڈ میں رکھے گئے فائر ایکسٹینگوشر کی تاریخِ ختم ہو چکی تھی۔ ایکسٹینگوشر پر 2019 کی فلنگ تاریخ درج تھی اور اس کی ایکسپائری 2020 میں ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ، فائر الارم بھی بجا نہیں تھا، جس سے سوالات مزید بڑھ گئے ہیں۔ انکشاف ہوا ہے کہ یہ سلنڈرز صرف دکھاوے کے طور پر رکھے گئے تھے۔
اس کے علاوہ، اس سال فروری میں اسپتال میں آگ کی حفاظت کے لیے آڈٹ بھی کیا گیا تھا اور جون میں ماک ڈرل بھی ہوئی تھی، مگر ان میں کوئی واضح کمی نہیں دیکھی گئی تھی۔ نائب وزیر اعلیٰ بر جیش پاتھ نے کہا ہے کہ آگ کے بعد کی تحقیقات میں لامپرواہی کی باتوں کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
عینی شاہد ہمیرپور کے رہائشی بھگوان داس نے بتایا کہ جب آگ لگی، وہ خود وارڈ میں موجود تھے۔ ان کے مطابق، نرس نے آکسیجن سلنڈر کے پائپ کو جوڑنے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تھی، جس سے پورے وارڈ میں آگ لگ گئی۔ بھگوان داس نے خود چند بچوں کو بچانے کی کوشش کی اور ان کے جسم پر کپڑے لپیٹ کر انہیں بچایا۔
اس حادثے کی تحقیقات جاری ہیں اور اسپتال کی لاپرواہیوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آئندہ اس طرح کے سانحے سے بچا جا سکے۔