بنگلہ دیش میں احتجاج کی لہر، حکومت اور عوامی لیگ کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی، فوج تعینات
ڈھا کہ، 10/نومبر (ایس او نیوز /ایجنسی) بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں میں سیاسی صورتحال تناؤ کا شکار ہو گئی ہے، خاص طور پر جب سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے حالات خراب ہونے کے بعد عوامی لیگ نے حکومت کے خلاف بڑے احتجاج کی تیاری شروع کر دی ہے۔ شیخ حسینہ نے تین ماہ قبل بنگلہ دیش سے پناہ حاصل کی تھی، اور اب ان کی پارٹی اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے جا رہی ہے۔ اس احتجاج کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا ہے۔
عوامی لیگ کے کارکنوں اور حامیوں پر آج پولیس کی طرف سے سختی کی گئی ہے اور کئی کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ڈھاکہ کے مختلف اہم علاقوں میں کی گئی ہیں، جہاں عوامی لیگ کے حامی احتجاج کی تیاری میں ہیں۔ یہ احتجاج اس بات کے خلاف ہے کہ حکومت نے ان کے رہنماؤں کو غلط طریقے سے پھنسایا اور طلبا ونگ پر پابندی عائد کی ہے۔
ڈھاکہ میں فوج، پولیس اور اسکولوں کے طلباء نے ان علاقوں میں بڑی تعداد میں اپنے آپ کو جمع کر لیا ہے تاکہ احتجاج کو روکا جا سکے۔ عوامی لیگ کے مخالفین نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے باوجود، عوامی لیگ نے بدھ کے دن سڑکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے اس بات کی دھمکی دی ہے کہ اگر عوامی لیگ نے احتجاج کیا، تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سخت ایکشن لیں گے۔
اسی دوران، بنگلہ دیش کی فوج اور پولیس نے ایک اور واقعہ میں امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں جشن منانے کے الزام میں عوامی لیگ کے 10 کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان کارکنوں نے ٹرمپ کی جیت کے حوالے سے پرچم اور تصاویر کے ساتھ ریلی نکالنے کی کوشش کی تھی۔
حکومت نے عوامی لیگ کو اس احتجاج کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے اور انہیں سختی سے انتباہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے فاشسٹ رویے کا مظاہرہ نہ کریں۔ اس صورتحال کے بعد بنگلہ دیش اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران بنگلہ دیش میں اقلیتی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا تھا، جس سے بظاہر دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید مشکلات آ سکتی ہیں۔