کیا مسلمان بھی ہندوستانی شہری حقوق کے حق دار ہیں؟ از :سیدمنظوم عاقب لکھنو
پچھلے٩دسمبرسےحکوت ہنداورہندوستانی شہریوں کےبیچ ایک تنازعہ چل رہاہےجسکاسردست کوئی حل نظرنہیں آرہاہے،کیونکہ ارباب اقتدارسی اےاےکیخلاف احتجاج اوراعتراض کرنےوالوں کویہ باورقراردیناچاہتی ہیں کہ آپکااعتراض اوراحتجاج ہمارےلئے اہمیت کاحامل نہیں ہےاوراحتجاج اورمخالفت کرنےوالےارباب اقتدار کویہ باور قرار دینا چاہتےہیں کہ ہم بھی ہندوستانی شہری ہیں اورہمکوبھی وہ سارےحقوق حاصل ہیں جوکسی بھی عام ہندوستانی شہری کو آئین ہند کی طرف سےضمانت دی گئی ہے.
ایسانہیں ہیکہ صرف سیاسی شخصیات کی طرف سےبطورسیاست ایساعمل اورردعمل کیا جارہا ہے جس سےایک مخصوص طبقےکوانکےآئینی اورشہری حقوق سےمحروم کرنےکی سیاست کھیلی جارہی ہےاورمسئلہ صرف حصول اقتدار کاہےبلکہ ایک مکمل حکمت عملی اورشازش کےتحت ملک میں ایسےعمل اورردعمل سامنےآرہےہیں جس سےیہ سجھناکچھ مشکل نہیں رہ گیاہےکہ مسلمانوں کاوجوداس ملک میں اب کچھ لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگیاہےیہ لوگ آئین ہند کے سیکولر کردارکواب برداشت نہیں کرپارہےہیں ملک میں سیکولرہوناکبھی باعث افتخارتھالیکن آج کےوقت میں سیکولر اور سیکولرزم گالی کےمترادف ہوگیاہےملک میں رہائش پذیرایسےشہری جوخودکوہندوکہنانہیں چاہتی، چاہےوہ کوئی بھی ہواسکاوجود ان لوگوں کوناگوارلگتاہےہےجوایک خاص کردارکوہندومذہب کانام دیکرہندوستان کےمالک حقیقی بنناچاہتےہیں چونکہ انکے اس منصوبےکوپایہ تکمیل تک پہنچنے میں سب سےبڑی روکاوٹ مسلمان نظرآتاہےلہٰذامسلمانو ں کوسب سےپہلےانکےشہری و آئینی حقوق سےمحروم کیاجارہاہےاسکےبعددوسرےلوگوں کابھی نمبر آئیگا۔
آپ غورکریں ارباب اقتدار۔عدلیہ۔انتطا میہ کتنی ڈھٹائی سےیہ تاثردیتےہیں کہ صرف مسلمان ہی سی اےاےکی مخالفت کر رہا ہے۔گویااگرمسلمان اس ملک میں کچھ مانگ رہاہےیااعتراض کررہاہےتواسکویہ حق قطعی طورپرحاصل نہیں ہے کہ وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاےیااپنےحقوق کامطالبہ کرے۔۔حیرت کی بات تویہ ہیکہ اس ملک کاوہ طبقہ جوخود کو سیکولرکہلواتاہے یاکمیونسٹ کہلاتاہےاسکےبھی خیالات یہی ہوگئے ہیں کہ مسلمان اپنےحقوق کےمطالبےمیں آواز نہ اٹھاے اس سے بھی زیادہ حیرت اس پرہوتی ہیکہ خودمسلم قائدین اس قدراحساس کمتری کاشکارہوچکےہیں کہ انکابھی مدلل اعلان یہی ہوتاہے کہ مسلمان اپنےساتھ دگرہم وطن کولیکرہی احتجاج کریں تنہااحتجاج نہ کریں ۔
گویامسلم قائدین نےبھی یہ امراپنےلئے لاز م قراردےدیاہیکہ ملک میں حکومتوں عدالتوں اوردگرذیلی انتظامیہ سےمسلمانوں کو اپنےکسی قسم کےحق نہیں مانگناہے۔پچھلے٣٠سالوں سےمسلم قائدین اوررہنماوں نےمسلمانوں کی یہ ذہن سازی کردی ہیکہ مسلمان خودسےاپنےلئے تعلیمی ادارے،طبی ادارے،رفاہی ادارے،تحفظاتی ادارےاوردیگرجملہ اجتماعی ضروریات کو حاصل کرنےکاانتظام اپنےروپیہ سےکرتاہےاوراپنی گاڑھی کمائی کابڑاسرمایہ ان چیزوں پرکرتاہےجسکی ذمہ داری حکومتوں کی ہواکرتی تھی۔ دھیرے،دھیرےنوبت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ آئین ہندنےہندوستانی شہریوں کوجوبنیادی حقوق دئیےہیں اس کوبھی تلف کیاجارہاہےاورمسلم عوام کویہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہیکہ اپنےبنیادی حقوق طلب کرنے کے لئے بھی مسلمان غیرمسلموں کامحتاج ہےاوروقتی طورپرکچھ غیرمسلم حضرات ہماری تحریکوں میں دولھےکی طرح شریک ہوتےہیں اور اسکے لئے میں ہم انکےسیاسی غلام بلادام بن جاتےہیں ۔
فکراورتدبرکانقطہ یہ ہیکہ مسلمانوں کواب یہ احساس دلایاجاےکہ ہرشخص کواپنی جنگ خودلڑنی پڑتی ہےہم ہندوستانی ہیں تو ہم کو بھی وہ سارےآئینی حقوق حاصل ہیں جوکسی بھی دیگرہندوستانی کواگرماسٹر،ڈاکٹر،آگن بانی والے،اےان ایم فارماسسٹ ،ایم آر،کسان،تاجروغیرہ وغیرہ اپنےحقوق کےحصول کے لئے سرکار کےخلاف تحریک چلاسکتے ہیں توہمکوبھی اپنےحقوق کے حصول کے لئے تنہاتحریک چلاناچاہئے۔
عدالت عالیہ کواگریہ فکرہے کہ پانچ ہزارہندوستانیوں کوراستہ بند ہونےکی وجہ سےدشواری ہورہی ہےانکی دشواری دورہونی چائیےتوعدالت کویہ بھی دیکھناچائیے کہ ٢٥کروڑ لوگوں کوسی اےاے،این آرسی سےدشواری ہوگی انکوبھی راحت ملنی چائیے۔کیونکہ مسلمان بھی اسی ملک کاشہری ہےاوراسکوبھی شہری حقوق حاصل ہیں۔