اے پی سی آر نے مرکزی حکومت کے نئے کریمنل قوانین کو قراردیا ناقابل قبول؛ سابق جج نے کہا پہلے کوڈیفائید رولس لاگو کئے جائیں پھر لیگل ریفارمس کی بات کی جائے
بینگلور 30 جون (ایس او نیوز): اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس (اے پی سی آر) نے مرکزی حکومت کی طرف سے یکم جولائی سے لاگو ہونے والے تین نئے فوجداری قوانین کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے خلاف قرار دیا۔ بنگلور سینٹ جوسف کالج اوڈیٹوریم میں قانونی انصاف کے حصول پرمنعقدہ سیمینار میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف فرما کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ناگ موہن داس نے مرکزی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کوڈیفائید رولس لاگو کئے جائیں پھر لیگل ریفارمس کی بات کی جائے۔
جسٹس ناگ موہن داس نے کہا کہ اُن قوانین کو ترجیحی بنیاد پر لانے کی ضرورت ہے جو شہریوں کو تحفظ فراہم کرسکیں، الیکشن میں سدھار، انتظامیہ میں سدھار، عدلیہ، ایجوکیشن، ہیلتھ اور لیبر وغیرہ میں سدھار لانے کی طرف توجہ دینے کے بجائے حکومت فوجداری قوانین لاگو کرنے جارہی ہے، جو کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے کروڑوں روپئے لے کر بعض لوگ غیر ممالک فرار ہوگئے ہیں اور ہم نہ اُنہیں واپس لانے میں کامیاب ہورہے ہیں اور نہ ہی ایک پیسہ واپس لایا گیاہے، ہمیں ایسے قوانین کی ضرورت ہے جو ایسوں کو واپس لاسکیں۔ لیکن عوام کی بھلائی کے قوانین لانے کے بجائے حکومت اپنی من مانی کے قوانین لاگو کرنے میں مصروف ہے، جس کی مخالفت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جس قانون کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے، اُیسے قوانین لاگو کرتے ہوئے سرکار عوام کے حق پر ضرب لگارہی ہے۔ جسٹس ناگ موہن داس نے کہا کہ اگر ہمیں نئے قوانین اور ریفارمس لانا ہے تو اس کےلئے بھی رولس اور گائیڈلائن ہونے چاہئے۔ سرکار اپنی مرضی کے مطابق قوانین نہیں لاسکتی۔ جسٹس ناگ موہن داس نے اے پی سی آر کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ پہلی بار کرناٹک میں ان نئے فوجداری قوانین کو لے کر سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے، انہوں نے اس پر مزید بحث کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
سیمینار میں ہائی کورٹ کے معروف ایڈوکیٹ اور حقوق انسانی کے کارکن بی ٹی وینکٹیش نےبھی نہ صرف نئے فوجداری قوانین کی کھل کر مخالفت کی بلکہ ان قوانین کے ذریعے پولس کو دی جانے والی غیر ضروری آزادی سے ممکنہ قانون کے غلط استعمال سے بھی آگاہ کرایا۔ انہوں نے کہا کہ نئے فوجداری قوانین میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے پولس کو تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے تینوں نئے قوانین کے مختلف پہلوؤں اور ان کے اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور ان قوانین سے حقوق انسانی کی پامالی کے خطرات سے آگاہ کرایا۔
پی یو سی ایل کی کارکن محترمہ مانوی اطری نے نفرت انگیز تقاریر میں خطرناک حد تک اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا انہوں نے نیوز چینلز کے ذریعے نفرتی ایجنڈہ پھیلانے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان نے موجودہ قانونی نظام کے اندر پیرا لیگل ورکرز کی ضرورت پر روشنی ڈالی اور ہندوستان بھر میں اے پی سی آر کے ذریعے انجام دی جانے والی خدمات اور سرگرمیوں کے تعلق سے آگاہ کرایا۔
دہلی یونیورسٹی کے کالم نگار پروفیسر اپوروانند نے شرکاء پر زور دیا کہ وہ سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ایسے قوانین کی کھل کر مخالفت کریں جو عوام دوست نہیں ہیں۔ اے پی سی آر کرناٹک چاپٹر کے صدر ایڈوکیٹ پی عثمان نے استقبالیہ پیش کرنے کے ساتھ پروگرام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی جبکہ اے پی سی آر کرناٹک کے ریاستی سکریٹری ایڈوکیٹ محمد نیاز نے پروگرام کی نظامت کی۔ ریاست کے مختلف اضلاع سے اے پی سی آر کارکنان سیمینار میں شریک تھے۔