مسجد میں 'جے شری رام' کا نعرہ لگانے والوں پر سے مقدمہ خارج کرنے کے فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو قرار دیا افسوسناک

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 17th October 2024, 1:44 AM | ملکی خبریں |

نئی دہلی:16؍ اکتوبر  (ایس او نیوز/پریس ریلیز) کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ ایک مسجد میں ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے والوں پر سے مقدمہ خارج کرنا انتہائی افسوس ناک ہے، جس سے نہ صرف فرقہ پرست عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی، بلکہ اس طرح کی مذموم کوششوں کی بھی حمایت ملے گی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں اس بات پر انتہائی تعجب اور افسوس کا اظہار کیا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں رات کے دس بجے مسجد میں داخل ہوکر کچھ سرپھروں کے ذریعہ موجود لوگوں کو دھمکیاں دینے اور ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے کو ایک معمولی بات قرار دیا۔ جسٹس ایم ناگ پرسنّا کی سربراہی میں سنگل ڈویژن بنچ نے ملزمین کی اپیل کی درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگانے سے کسی بھی برادری کے مذہبی جذبات کو کیسے ٹھیس پہنچے گی۔

ملزمین پر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 447 (مجرمانہ خلاف ورزی)، 505 (عوامی فساد پھیلانے والے بیانات)، 506 (مجرمانہ دھمکی)، 34 (مشترکہ ارادہ) اور 295 اے (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بینچ نے اس بات پر زور دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مزید کارروائی کی اجازت دینا قانون کا غلط استعمال ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے بینچ نے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 295A کے تحت کوئی بھی اور ہر عمل جرم نہیں بنے گا۔

بورڈ کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں واضح  کیا گیا ہے  کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ محض ایک مذہبی نعرہ نہیں ہے، بلکہ آج کل یہ فرقہ وارانہ نفرت، کشیدگی، تصادم اور سماج میں انتشار پھیلانے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گوکہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں اس طرح کا نعرہ لگانا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔

ڈاکٹر الیاس نے کہا کہ عدالتوں کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا عمل کس مقصد کے تحت کیا گیا ہے اور کسی دوسرے طبقے کی عبادت گاہ میں دیر رات گئے داخل ہوکر نعرے لگانے کے پس پردہ کیا مقاصد کارفرما تھے۔ مسلمان ایک خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، مساجد اسی کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ  اگر کوئی مسلمان کسی مندر یا کسی اور فرقہ کی عبادت گاہ میں داخل ہوکر نعرہ ’’اللہ اکبر‘‘ لگانے لگتا تو کیا وہاں موجود لوگ اسے برداشت کر لیتے؟ اور کیا اس وقت بھی عدالت کا فیصلہ یہی ہوتا؟
 

ایک نظر اس پر بھی

ہماچل پردیش کے منڈی میں مسجد منہدم کرنے کے فیصلہ پرروک؛ مسلم فریق نے لی راحت کی سانس

 شملہ میں ٹی سی پی کے پرنسپل سکریٹری کی عدالت نے ہماچل پردیش کے منڈی میں مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو منہدم کرنے سے متعلق میونسپل کارپوریشن کورٹ کے 13 ستمبر کو دیئے گئے فیصلے پر روک لگا دی ہے۔ مسجد کی غیر قانونی تعمیر کو اگلے حکم تک گرایا نہیں جائے گا۔

بارہ بنکی: شرپسندوں کا مسجد پر حملہ، شکایت کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر عوام میں غم و غصہ

اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں سلوری گواسپور علاقہ میں ہندوتوا شرپسند عناصر نے مسلمانوں کے گھروں کی املاک کے ساتھ رضا مسجد کو بھی نشانہ بنایا۔ مقامی رپورٹس کے مطابق، ۱۳ اکتوبر کو دسہرہ تہوار کے موقع پر مورتی وسرجن کے دوران کچھ شرپسند افراد دانستہً مسجد کے قریب جمع ہوئے اور ...

بہرائچ فساد معاملے پر بی ایس پی ، کانگریس اورسماجوادی کی یوگی سرکار پر تنقید

بہرائچ میں جس طرح سے فساد برپا ہوا ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا پر پوری طرح سے عیاں ہوچکا ہے،اس کے باوجود یوگی حکومت فسادیوں پر قابو پانے کے بجائے مزاحمت اور دفاع کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔

پرینکا گاندھی نے ’انتخابی سیاست‘ میں رکھا قدم، کانگریس نے وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے بنایا امیدوار

کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ’انتخابی سیاست‘ میں قدم رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آج جیسے ہی کانگریس پارٹی نے کیرالہ کی وائناڈ لوک سبھا سیٹ پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے پیش نظر پرینکا گاندھی کا نام بطور امیدوار اعلان کیا، ویسے ہی ان سوالوں پر فل اسٹاپ لگ گیا کہ وہ ...