پلیس آف ورشپ ایکٹ لاگو ہونے کے باوجود مسجدوں کے سروے کیوں ؟ کیا سروے کرانے کی لسٹ میں شامل ہیں 900 مساجد ؟
نئی دہلی، 4/دسمبر (ایس او نیوز ) بھلے ہی 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ ملک میں لاگو ہو، جو یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 سے پہلے کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن 80 کی دہائی میں رام مندر تحریک کے دوران جو نعرہ گونجا تھا: "ایودھیا صرف جھانکی ہے، کاشی-متھرا باقی ہے" ، اس نعرے کی بازگشت حالیہ دنوں سنبھل میں پیش آنے والے واقعات نے تازہ کردیا ہے۔ سنبھل کے بعد اب یکے بعد دیگرے کئی مساجد یہاں تک کہ مشہور و معروف صوفی درگاہ پر بھی نشانہ باندھا جارہا ہے۔ سوشیل میڈیا میں بعض سیکولر صحافی اب اپنے یو ٹیوب چینلوں کے ذریعے سوال اُٹھانا شروع کردیا ہے کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی موجودگی کے باوجود عدالتوں کی طرف سے سروے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے۔ معروف صحافی رویش کمار نے تو" بھارت کھوجو یوجنا" نام کی ایک وڈیو سیریز ہی پیش کردی ہے جس میں طنز کرتے ہوئے وہ ملک کے عوام سے اپنے گھر کی بھی کُھدائی کرنے کے لئے کہتے پائے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دیگر صحافیوں نے بھی اپنے یو ٹیوب چینلس کے ذریعے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر اس طرح کے سروے اور کھدائی کے ذریعے ملک کو کہا ں لے جایا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک وڈیو رپورٹ آکاش بینرجی نے بھی " ایودھیا 2.0 " پیش کی ہے اور ملک کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لے جانے اور اس کے پیچھے کے مقاصد پر سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔
یاد رہے کہ 1991 میں جب رام مندر تحریک اپنے عروج پر تھی، اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے ہندوستان کی پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کیا۔ اس قانون کو عبادت گاہوں کا ایکٹ، 1991 کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت دو بڑی چیزیں ہیں۔ سب سے پہلے، 15 اگست 1947 سے پہلے بنائے گئے کسی بھی مذہبی مقام کی شکل، چاہے وہ مندر ہو یا مسجد، تبدیل نہیں کی جائے گی۔ یعنی اگر مندر ہے تو مندر ہی رہے گا، مسجد ہے تو مسجد ہی رہے گی اور معاملہ کچھ بھی ہو چرچ، گرودوارہ وہی رہے گا۔ دوسری سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اگر کسی کے پاس اس بات کا ثبوت ہو کہ مسجد کی جگہ پر پہلے کوئی مندر یا کوئی اور مذہبی مقام موجود تھا تو اس ثبوت کو بھی نہیں مانا جائے گا اور مذہبی مقام کی حیثیت جوں کی توں رکھی جائے گی۔ . یہ قانون پورے ملک میں لاگو ہے لیکن اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ 10 سال سے زیادہ عرصے سے اٹھ رہا ہے۔ ایسے میں اس قانون کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے کاشی میں گیانواپی کو لے کر عرضی دائر کی گئی جو عدالت میں ہے۔ پھر متھرا کا معاملہ بھی عدالت میں گیا اور اب سنبھل کو لے کر تنازعہ ہے۔ ایسے میں کیا یہ تنازع صرف سنبھل تک ہی رکے گا یا کئی اور مساجد اس کی زد میں آئیں گی؟ اس سوال کا جواب وکیل اشونی اپادھیائے کے بیان میں ملتا ہے، جنہوں نے عبادت گاہ ایکٹ پر عدالت میں سوالات اٹھائے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں کم از کم 900 ایسی مساجد ہیں، جو مندروں کو گرا کر بنائی گئی ہیں۔ . یہ تمام مساجد 1192 سے 1947 کے درمیان تعمیر کی گئیں۔ اس عرضی کے دوران اشونی اپادھیائے نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان 900 مندروں میں سے 100 مندروں کا ذکر مہاپوران میں بھی ملتا ہے، جنہیں گرا کر مسجدوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ایودھیا، پھر کاشی، پھر متھرا اور اب سنبھل کے بعد اب بھی 900 سے زیادہ مساجد پر دعوے کیے جا سکتے ہیں۔ سنبھل کا ردعمل جس طرح سے نظر آرہا ہے، اس سے شبہ ہے کہ وہ دعوے بھی جلد ہی کیے جائیں گے، لیکن ایک سوال کا جواب ابھی باقی ہے کہ جب عبادت گاہوں کا قانون پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون ہے ۔ اگست 1947 سے پہلے مذہبی مقامات پر جمود برقرار ہے، پھر ضلعی عدالتیں ان مقدمات کی سماعت کیسے کریں گی۔ اس کا جواب سپریم کورٹ کے لیے ہے کہ وہ ضلعی عدالتوں کو ایسے حکم دینے سے روکے اور بتائے کہ عبادت گاہوں کا قانون کسی بھی عدالت کو اس طرح کے سروے کا حکم دینے سے روکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے۔ ستمبر 2022 میں جب جسٹس یو یو للت ملک کے چیف جسٹس تھے، یہ معاملہ بھی ان کی بنچ کے سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے دو ہفتے کے اندر جواب طلب کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت اس معاملے پر حلف نامہ داخل کرے۔ اس کے بعد صرف دو ہفتے نہیں بلکہ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ابھی تک مرکزی حکومت نے اپنی طرف سے کوئی حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے مسائل ضلعی عدالتوں تک پہنچ رہے ہیں اور ضلعی عدالتیں مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں، کیونکہ ان کے پاس سپریم کورٹ کی طرف سے بھی ایک ہدایت ہے جو مئی 2022 کے لیے ہے۔ تب جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ اگرچہ 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت کسی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ واقعی مذہبی جگہ ہے اور عبادت گاہوں کے قانون کے تحت تلاش کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔
یعنی اس پورے تنازع کے پیچھے سپریم کورٹ کا مئی 2022 کا حکم ہے جو جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے دیا تھا۔ اب اگر ہم عبادت گاہوں کے قانون اور سپریم کورٹ کے حکم کو ایک ساتھ رکھیں تو آسان زبان میں سمجھ سکتے ہیں کہ چاہے عدالت ہو، سروے ٹیم ہو یا اے ایس آئی، اس کاشی سے سنبھل تک کی مسجدوں کی اصل ہئیت کے بارے میں جو چاہیں بتائیں لیکن قانون کی رو سےوہ مسجد ہی رہیں گی یا نہیں ، یہ دیکھنا اہم ہوگا اور یہ جاننا ضروری ہوگا کہ آخر یہ ہنگامہ آرائی کہاں جاکر رُکے گی۔