انڈونیشیا کے ساحل پر 90 روہنگیا پناہ گزین بے یار و مددگار حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور
جکارتہ، 31/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں نے درجنوں روہنگیا پناہ گزینوں کو انڈونیشیا کے مغربی ساحل پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ان پناہ گزینوں کے قریب 6 روہنگیا کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ میانمار میں ظلم و ستم کا شکار اس اقلیت کے ہزاروں افراد ہر سال اسمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں، بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ کشتیوں کے ذریعے ملائیشیا یا انڈونیشیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرقی آچے کے ایک گاؤں کے اہلکار سیفول انور نے بتایا کہ پناہ گزینوں کو جمعرات کی صبح سے پہلے ساحل سے 100 میٹر دور چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس گروپ میں 46 خواتین، 37 مرد، اور 7 بچے شامل تھے، جبکہ مقامی لوگوں نے 6 لاشیں ساحل کے قریب دیکھیں۔ سیفول نے کہا کہ "یہ واضح ہے کہ کوئی کشتی انہیں یہاں لائی تھی۔" 8 بیمار پناہ گزینوں کو فوری طبی امداد کے لیے منتقل کیا گیا ہے۔
مشرقی آچے کے قائم مقام ضلعی سربراہ امر اللہ ایم ردا نے صحافیوں کو بتایا کہ پناہ گزینوں کو اس وقت تک ساحل پر خیموں میں رکھا جائے گا جب تک کہ حکام انہیں پناہ نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا کہ وہ آنے والوں کے بارے میں جانتا ہے لیکن مزید معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔ آچے کے قائم مقام گورنر صفریزل نے صحافیوں کو بتایا کہ حالیہ آمد کیلئے ’’انسانی اسمگلنگ مافیا‘‘ ذمہ دار ہے۔ اس ماہ مغربی انڈونیشیا میں آنے والوں کا یہ تیسرا گروپ ہے، جس میں ۱۵۰؍ سے زیادہ پناہ گزین آچے اور دیگر ۱۴۰؍ شمالی سماترا صوبے میں پہنچے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری ۲۰۲۳ء سے مارچ ۲۰۲۴ء کے درمیان ۲۵۰۰؍ روہنگیا کشتیوں کے ذریعے آچے پہنچے۔
ہر سال، ہزاروں روہنگیا، بنگلہ دیش سے ملائیشیا تک ۴؍ ہزار کلومیٹر کا خطرناک سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ملٹی ملین ڈالر کے انسانی اسمگلنگ آپریشن کو ہوا ملتی ہے۔انڈونیشیا اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اسے پناہ گزینوں کو لینے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا، اس کے بجائے پڑوسی ممالک سے بوجھ بانٹنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بہت سے آچنی، جو خود کئی دہائیوں کے خونی تنازعے کی یادیں رکھتے ہیں، اپنے ساتھی مسلمانوں کی حالت زار پر ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ سالانہ اتنی بڑی تعداد میں آمد ان کے صبر کا امتحان ہے۔